الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الدِّيَاتِ
کتاب: دیتوں کا بیان
3. باب الإِمَامِ يَأْمُرُ بِالْعَفْوِ فِي الدَّمِ
3. باب: امام (حاکم) خون معاف کر دینے کا حکم دے تو کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 4496
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنِ الْحَارِثِ بْنِ فُضَيْلٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ أَبِي الْعَوْجَاءِ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ الْخُزَاعِيِّ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَنْ أُصِيبَ بِقَتْلٍ أَوْ خَبْلٍ فَإِنَّهُ يَخْتَارُ إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ يَقْتَصَّ وَإِمَّا أَنْ يَعْفُوَ وَإِمَّا أَنْ يَأْخُذَ الدِّيَةَ، فَإِنْ أَرَادَ الرَّابِعَةَ فَخُذُوا عَلَى يَدَيْهِ، وَمَنِ اعْتَدَى بَعْدَ ذَلِكَ فَلَهُ عَذَابٌ أَلِيمٌ".
ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کو (اپنے کسی رشتہ دار کے) قتل ہونے، یا زخمی ہونے کی تکلیف پہنچی ہو اسے تین میں سے ایک چیز کا اختیار ہو گا: یا تو قصاص لے لے، یا معاف کر دے، یا دیت لے لے، اگر وہ ان کے علاوہ کوئی چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو، اور جس نے ان (اختیارات) میں زیادتی کی تو اس کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4496]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الدیات 3 (2623)، (تحفة الأشراف: 12059)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/31)، سنن الدارمی/الدیات 1 (2396) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن ماجه (2623)¤ سفيان بن أبي العوجاء : ضعيف (تقريب التهذيب: 2450)¤ ولبعض الحديث شاهد حسن عند أحمد (32/4)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 158

حدیث نمبر: 4497
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيُّ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" مَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رُفِعَ إِلَيْهِ شَيْءٌ فِيهِ قِصَاصٌ إِلَّا أَمَرَ فِيهِ بِالْعَفْوِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی ایسا مقدمہ لایا جاتا جس میں قصاص لازم ہوتا تو میں نے آپ کو یہی دیکھا کہ (پہلے) آپ اس میں معاف کر دینے کا حکم دیتے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4497]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/القسامة 23 (4787، 4788)، سنن ابن ماجہ/الدیات 35 (2692)، (تحفة الأشراف: 1095)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/213، 252) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ أخرجه النسائي (4787 وسنده صحيح) وابن ماجه (2692 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 4498
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" قُتِلَ رَجُلٌ عَلَى عَهْدِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَرُفِعَ ذَلِكَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَدَفَعَهُ إِلَى وَلِيِّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ الْقَاتِلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ قَتْلَهُ، قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْوَلِيِّ: أَمَا إِنَّهُ إِنْ كَانَ صَادِقًا ثُمَّ قَتَلْتَهُ دَخَلْتَ النَّارَ، قَالَ: فَخَلَّى سَبِيلَهُ، قَالَ: وَكَانَ مَكْتُوفًا بِنِسْعَةٍ فَخَرَجَ يَجُرُّ نِسْعَتَهُ فَسُمِّيَ ذَا النِّسْعَةِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک شخص قتل کر دیا گیا تو یہ مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا گیا، آپ نے اس (قاتل) کو مقتول کے وارث کے حوالے کر دیا، قاتل کہنے لگا: اللہ کے رسول! اللہ کی قسم! میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہ تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وارث سے فرمایا: سنو! اگر یہ سچا ہے اور تم نے اسے قتل کر دیا، تو تم جہنم میں جاؤ گے یہ سن کر اس نے قاتل کو چھوڑ دیا، اس کے دونوں ہاتھ ایک تسمے سے بندھے ہوئے تھے، وہ اپنا تسمہ گھسیٹتا ہوا نکلا، تو اس کا نام ذوالنسعۃ یعنی تسمہ والا پڑ گیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4498]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الدیات 13 (1407)، سنن النسائی/القسامة 3 (4726)، سنن ابن ماجہ/الدیات 34 (2690)، (تحفة الأشراف: 12507) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ الحديث الآتي (4499) شاھد له

حدیث نمبر: 4499
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ الْجُشَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ عَوْفٍ، حَدَّثَنَا حَمْزَةُ أَبُو عُمَرَ الْعَائِذِيُّ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، حَدَّثَنِي وَائِلُ بْنُ حُجْرٍ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جِيءَ بِرَجُلٍ قَاتِلٍ فِي عُنُقِهِ النِّسْعَةُ، قَالَ: فَدَعَا وَلِيَّ الْمَقْتُولِ، فَقَالَ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَقْتُلُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ، فَلَمَّا وَلَّى، قَالَ: أَتَعْفُو؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَأْخُذُ الدِّيَةَ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَتَقْتُلُ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: اذْهَبْ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ فِي الرَّابِعَةِ، قَالَ: أَمَا إِنَّكَ إِنْ عَفَوْتَ عَنْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِهِ وَإِثْمِ صَاحِبِهِ، قَالَ: فَعَفَا عَنْهُ، قَالَ: فَأَنَا رَأَيْتُهُ يَجُرُّ النِّسْعَةَ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک قاتل لایا گیا، اس کی گردن میں تسمہ تھا آپ نے مقتول کے وارث کو بلوایا، اور اس سے پوچھا: کیا تم معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا دیت لو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو کیا تم قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اچھا لے جاؤ اسے چنانچہ جب وہ (اسے لے کر) چلا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا تم اسے معاف کرو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم دیت لو گے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم قتل کرو گے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے لے جاؤ چوتھی بار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سنو! اگر تم اسے معاف کر دو گے تو یہ اپنا اور مقتول دونوں کا گناہ اپنے سر پر اٹھائے گا یہ سن کر اس نے اسے معاف کر دیا۔ وائل کہتے ہیں: میں نے اسے دیکھا وہ اپنے گلے میں پڑا تسمہ گھسیٹ رہا تھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4499]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/القسامة 10 (1680)، سنن النسائی/القسامة 3 (4728)، القضاء 25 (5417)، (تحفة الأشراف: 11769)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الدیات 8 (2404) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1680)

حدیث نمبر: 4500
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي جَامِعُ بْنُ مَطَرٍ، حَدَّثَنِي عَلْقَمَةُ بْنُ وَائِلٍ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ.
اس سند سے بھی علقمہ بن وائل سے اسی مفہوم کی روایت مروی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4500]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11769)» ‏‏‏‏

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (1680)

حدیث نمبر: 4501
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَوْفٍ الطَّائِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْقُدُّوسِ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَطَاءٍ الْوَاسِطِيُّ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِحَبَشِيٍّ، فَقَالَ: إِنَّ هَذَا قَتَلَ ابْنَ أَخِي، قَالَ: كَيْفَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ: ضَرَبْتُ رَأْسَهُ بِالْفَأْسِ وَلَمْ أُرِدْ قَتْلَهُ، قَالَ: هَلْ لَكَ مَالٌ تُؤَدِّي دِيَتَهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: أَفَرَأَيْتَ إِنْ أَرْسَلْتُكَ تَسْأَلُ النَّاسَ تَجْمَعُ دِيَتَهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَوَالِيكَ يُعْطُونَكَ دِيَتَهُ؟ قَالَ: لَا، قَالَ لِلرَّجُلِ: خُذْهُ، فَخَرَجَ بِهِ لِيَقْتُلَهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا إِنَّهُ إِنْ قَتَلَهُ كَانَ مِثْلَهُ، فَبَلَغَ بِهِ الرَّجُلُ حَيْثُ يَسْمَعُ قَوْلَهُ، فَقَالَ: هُوَ ذَا فَمُرْ فِيهِ مَا شِئْتَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّه صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْهُ، وَقَالَ مَرَّةً: دَعْهُ يَبُوءُ بِإِثْمِ صَاحِبِهِ وَإِثْمِهِ فَيَكُونُ مِنْ أَصْحَابِ النَّارِ، قَالَ: فَأَرْسَلَهُ".
وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص ایک حبشی کو لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، اور کہنے لگا: اس نے میرے بھتیجے کو قتل کیا ہے، آپ نے اس سے پوچھا: تم نے اسے کیسے قتل کر دیا؟ وہ بولا: میں نے اس کے سر پر کلہاڑی ماری اور وہ مر گیا، میرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے پاس مال ہے کہ تم اس کی دیت ادا کر سکو اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: بتاؤ اگر میں تمہیں چھوڑ دوں تو کیا تم لوگوں سے مانگ کر اس کی دیت اکٹھی کر سکتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، آپ نے فرمایا: کیا تمہارے مالکان اس کی دیت ادا کر دیں گے؟ اس نے کہا: نہیں، تب آپ نے اس شخص (مقتول کے وارث) سے فرمایا: اسے لے جاؤ جب وہ اسے قتل کرنے کے لیے لے کر چلا تو آپ نے فرمایا: اگر یہ اس کو قتل کر دے گا تو اسی کی طرح ہو جائے گا وہ آپ کی بات سن رہا تھا جب اس کے کان میں یہ بات پہنچی تو اس نے کہا: وہ یہ ہے، آپ جو چاہیں اس کے سلسلے میں حکم فرمائیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے چھوڑ دو، وہ اپنا اور تمہارے بھتیجے کا گناہ لے کر لوٹے گا اور جہنمیوں میں سے ہو گا چنانچہ اس نے اسے چھوڑ دیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4501]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (4499)، (تحفة الأشراف: 11769) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ انظر الحديثين السابقين (4499، 4500)

حدیث نمبر: 4502
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَحْيَى ابْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ، قَالَ:" كُنَّا مَعَ عُثْمَانَ وَهُوَ مَحْصُورٌ فِي الدَّارِ، وَكَانَ فِي الدَّارِ مَدْخَلٌ مَنْ دَخَلَهُ سَمِعَ كَلَامَ مَنْ عَلَى الْبَلَاطِ، فَدَخَلَهُ عُثْمَانُ فَخَرَجَ إِلَيْنَا وَهُوَ مُتَغَيِّرٌ لَوْنُهُ، فَقَالَ: إِنَّهُمْ لَيَتَوَاعَدُونَنِي بِالْقَتْلِ آنِفًا، قَالَ: قُلْنَا: يَكْفِيكَهُمُ اللَّهُ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَلِمَ يَقْتُلُونَنِي؟ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: كُفْرٌ بَعْدَ إِسْلَامٍ، أَوْ زِنًا بَعْدَ إِحْصَانٍ، أَوْ قَتْلُ نَفْسٍ بِغَيْرِ نَفْسٍ"، فَوَاللَّهِ مَا زَنَيْتُ فِي جَاهِلِيَّةٍ وَلَا فِي إِسْلَامٍ قَطُّ، وَلَا أَحْبَبْتُ أَنَّ لِي بِدِينِي بَدَلًا مُنْذُ هَدَانِي اللَّهُ، وَلَا قَتَلْتُ نَفْسًا، فَبِمَ يَقْتُلُونَنِي؟"، قَالَ أَبُو دَاوُد: عُثْمَانُ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا تَرَكَا الْخَمْرَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ.
ابوامامہ بن سہل کہتے ہیں کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، آپ گھر میں محصور تھے، گھر میں داخل ہونے کا ایک راستہ ایسا تھا کہ جو اس میں داخل ہو جاتا وہ باہر سطح زمین پر کھڑے لوگوں کی گفتگو سن سکتا تھا، عثمان اس میں داخل ہوئے اور ہمارے پاس لوٹے تو ان کا رنگ متغیر تھا، کہنے لگے: ان لوگوں نے ابھی ابھی مجھے قتل کرنے کی دھمکی دی ہے، تو ہم نے عرض کیا: امیر المؤمنین! آپ کی ان سے حفاظت کے لیے اللہ کافی ہے، اس پر انہوں نے کہا: آخر یہ مجھے کیوں قتل کرنا چاہتے ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا ہے: تین باتوں کے بغیر کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں: ایک یہ کہ اسلام لانے کے بعد وہ کفر کا ارتکاب کرے، دوسرے یہ کہ شادی شدہ ہو کر زنا کرے، اور تیسرے یہ کہ ناحق کسی کو قتل کر دے تو اللہ کی قسم! میں نے نہ تو جاہلیت میں، اور نہ اسلام لانے کے بعد کبھی زنا کیا، اور جب سے اللہ نے مجھے ہدایت بخشی ہے میں نے کبھی نہیں چاہا کہ میرا دین اس کے بجائے کوئی اور ہو، اور نہ ہی میں نے کسی کو قتل کیا ہے، تو آخر کس بنیاد پر مجھے یہ قتل کریں گے؟۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عثمان اور ابوبکر رضی اللہ عنہما نے تو جاہلیت میں بھی شراب سے کنارہ کشی اختیار کر رکھی تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4502]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الفتن 1 (2158)، سنن النسائی/المحاربة 6 (4024)، سنن ابن ماجہ/الحدود 1 (2533)، (تحفة الأشراف: 9782)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/61، 62، 65، 70)، دی/ الحدود 2 (2343) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ أخرجه الترمذي (2158 وسنده صحيح) والنسائي (4024 وسنده صحيح) وابن ماجه (2533 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 4503
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، فَحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ، قَالَ: سَمِعْتُ زِيَادَ بْنَ ضُمَيْرَةَ الضُّمَرِيَّ. ح وأَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ بَيَانٍ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ، أَنَّهُ سَمِعَ زِيَادَ بْنَ سَعْدِ بْنِ ضُمَيْرَةَ السُّلَمِيَّ، وَهَذَا حَدِيثُ وَهْبٍ وَهُوَ أَتَمُ، يُحَدِّثُ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ مُوسَى، وَجَدِّهِ، وَكَانَا شَهِدَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حُنَيْنًا، ثُمَّ رَجَعْنَا إِلَى حَدِيثِ وَهْبٍ: أَنْ مُحَلِّمَ بْنَ جَثَّامَةَ اللَّيْثِيَّ قَتَلَ رَجُلًا مِنْ أَشْجَعَ فِي الْإِسْلَامِ وَذَلِكَ أَوَّلُ غِيَرٍ قَضَى بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَكَلَّمَ عُيَيْنَةُ فِي قَتْلِ الْأَشْجَعِيِّ لِأَنَّهُ مِنْ غَطَفَانَ وَتَكَلَّمَ الْأَقْرَعُ بْنُ حَابِسٍ دُونَ مُحَلِّمٍ لِأَنَّهُ مِنْ خِنْدِفَ، فَارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ؟ فَقَالَ عُيَيْنَةُ: لَا وَاللَّهِ حَتَّى أُدْخِلَ عَلَى نِسَائِهِ مِنَ الْحَرْبِ وَالْحُزْنِ مَا أَدْخَلَ عَلَى نِسَائِي، قَالَ: ثُمَّ ارْتَفَعَتِ الْأَصْوَاتُ وَكَثُرَتِ الْخُصُومَةُ وَاللَّغَطُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عُيَيْنَةُ أَلَا تَقْبَلُ الْغِيَرَ؟ فَقَالَ عُيَيْنَةُ مِثْلَ ذَلِكَ أَيْضًا، إِلَى أَنْ قَامَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي لَيْثٍ يُقَالُ لَهُ مُكَيْتِلٌ عَلَيْهِ شِكَّةٌ وَفِي يَدِهِ دَرِقَةٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي لَمْ أَجِدْ لِمَا فَعَلَ هَذَا فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ مَثَلًا إِلَّا غَنَمًا وَرَدَتْ فَرُمِيَ أَوَّلُهَا فَنَفَرَ آخِرُهَا اسْنُنِ الْيَوْمَ وَغَيِّرْ غَدًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَمْسُونَ فِي فَوْرِنَا هَذَا وَخَمْسُونَ إِذَا رَجَعْنَا إِلَى الْمَدِينَةِ وَذَلِكَ فِي بَعْضِ أَسْفَارِهِ، وَمُحَلِّمٌ رَجُلٌ طَوِيلٌ آدَمُ وَهُوَ فِي طَرَفِ النَّاسِ، فَلَمْ يَزَالُوا حَتَّى تَخَلَّصَ فَجَلَسَ بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَعَيْنَاهُ تَدْمَعَانِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ الَّذِي بَلَغَكَ وَإِنِّي أَتُوبُ إِلَى اللَّهِ تَبَارَكَ وَتَعَالَى فَاسْتَغْفِرِ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَقَتَلْتَهُ بِسِلَاحِكَ فِي غُرَّةِ الْإِسْلَامِ! اللَّهُمَّ لَا تَغْفِرْ لِمُحَلِّمٍ بِصَوْتٍ عَالٍ، زَادَ أَبُو سَلَمَةَ: فَقَامَ وَإِنَّهُ لَيَتَلَقَّى دُمُوعَهُ بِطَرَفِ رِدَائِهِ"، قَالَ ابْنُ إِسْحَاق: فَزَعَمَ قَوْمُهُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَغْفَرَ لَهُ بَعْدَ ذَلِكَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: قَالَ النَّضْرُ بْنُ شُمَيْلٍ: الْغِيَرُ الدِّيَةُ.
زبیر بن عوام اور ان والد عوام رضی اللہ عنہما (یہ دونوں جنگ حنین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک تھے) سے روایت ہے کہ محلم بن جثامہ لیثی نے اسلام کے زمانے میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کو قتل کر دیا، اور یہی پہلی دیت ہے جس کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا، تو عیینہ نے اشجعی کے قتل کے متعلق گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ عطفان سے تھا، اور اقرع بن حابس نے محلم کی جانب سے گفتگو کی اس لیے کہ وہ قبیلہ خندف سے تھا تو آوازیں بلند ہوئیں، اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے؟ عیینہ نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم، اس وقت تک نہیں جب تک میں اس کی عورتوں کو وہی رنج و غم نہ پہنچا دوں جو اس نے میری عورتوں کو پہنچایا ہے، پھر آوازیں بلند ہوئیں اور شور و غل بڑھ گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عیینہ! کیا تم دیت قبول نہیں کر سکتے؟ عیینہ نے پھر اسی طرح کی بات کہی یہاں تک کہ بنی لیث کا ایک شخص کھڑا ہوا جسے مکیتل کہا جاتا تھا، وہ ہتھیار باندھے تھا اور ہاتھ میں سپر لیے ہوئے تھا، اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شروع اسلام میں اس نے جو غلطی کی ہے، اسے میں یوں سمجھتا ہوں جیسے چند بکریاں چشمے پر آئیں اور ان پر تیر پھینکے جائیں تو پہلے پہل آنے والیوں کو تیر لگے، اور پچھلی انہیں دیکھ کر ہی بھاگ جائیں، آج ایک طریقہ نکالئے اور کل اسے بدل دیجئیے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پچاس اونٹ ابھی فوراً دے دو، اور پچاس مدینے لوٹ کر دینا۔ اور یہ واقعہ ایک سفر کے دوران پیش آیا تھا، محلم لمبا گندمی رنگ کا ایک شخص تھا، وہ لوگوں کے کنارے بیٹھا تھا، آخر کار جب وہ چھوٹ گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آ بیٹھا، اور اس کی آنکھیں اشک بار تھیں اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے گناہ کیا ہے جس کی خبر آپ کو پہنچی ہے، اب میں توبہ کرتا ہوں، آپ اللہ سے میری مغفرت کی دعا فرمائیے، اللہ کے رسول! تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہ آواز بلند فرمایا: کیا تم نے اسے ابتداء اسلام میں اپنے ہتھیار سے قتل کیا ہے، اے اللہ! محلم کو نہ بخشنا ابوسلمہ نے اتنا اضافہ کیا ہے کہ یہ سن کر محلم کھڑا ہوا، وہ اپنی چادر کے کونے سے اپنے آنسو پونچھ رہا تھا، ابن اسحاق کہتے ہیں: محلم کی قوم کا خیال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بعد اس کے لیے مغفرت کی دعا فرمائی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نضر بن شمیل کا کہنا ہے کہ «غير» کے معنی دیت کے ہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4503]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الدیات 4 (2625)، (تحفة الأشراف: 3824)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/112، 6/10) (ضعیف)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ أخرجه ابن ماجه (2625 وسنده حسن) زياد بن ضميرة حسن الحديث علي الراجح