مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کے ایک شخص کی دو بیویاں تھیں ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مار کر اسے اور اس کے پیٹ کے بچے کو قتل کر دیا، وہ لوگ جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو ان میں سے ایک شخص نے کہا: ہم اس کی دیت کیوں کر ادا کریں جو نہ رویا، نہ کھایا، نہ پیا، اور نہ ہی چلایا، (اس نے یہ بات مقفّٰی عبارت میں کہی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم دیہاتیوں کی طرح مقفّی و مسجّع عبارت بولتے ہو؟“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں ایک غرہ (لونڈی یا غلام) کی دیت کا فیصلہ کیا، اور اسے عورت کے عاقلہ (وارثین) کے ذمہ ٹھہرایا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4568]
اس سند سے منصور سے اسی طرح کی حدیث مروی ہے، اور اس میں اتنا اضافہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول عورت کی دیت قاتل عورت کے عصبات پر ٹھہرائی، اور پیٹ کے بچے کے لیے ایک غرہ (غلام یا لونڈی) ٹھہرایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے اسی طرح حکم نے مجاہد سے مجاہد نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4569]
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 11510) (صحیح)»
مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے عورت کے املاص کے بارے میں لوگوں سے مشورہ لیا تو مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے اس میں ایک غلام یا لونڈی دینے کا فیصلہ کیا ہے، تو عمر نے کہا: میرے پاس اپنے ساتھ اس شخص کو لاؤ جو اس کی گواہی دے، تو وہ محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ کو لے کر ان کے پاس آئے۔ ہارون کی روایت میں اتنا اضافہ ہے تو انہوں نے اس کی گواہی دی یعنی اس بات کی کہ کوئی آدمی عورت کے پیٹ میں مارے جو اسقاط حمل کا سبب بن جائے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مجھے ابو عبید سے معلوم ہوا اسقاط حمل کو املاص اس لیے کہتے ہیں کہ اس کے معنی ازلاق یعنی پھسلانے کے ہیں گویا عورت ولادت سے قبل ہی مار کی وجہ سے حمل کو پھسلا دیتی ہے اسی طرح ہاتھ یا کسی اور چیز سے جو چیز پھسل کر گر جائے تو اس کی تعبیر «مَلِصَ» سے کی جاتی ہے یعنی وہ پھسل گیا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4570]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/ القسامة 2 (1689)، سنن ابن ماجہ/ الدیات 11 (2640)، (تحفة الأشراف: 11233، 11529)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/253) (صحیح)» (ہارون کی زیادتی صحیح نہیں ہے)
عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے ابوداؤد کہتے ہیں: اسے حماد بن زید اور حماد بن سلمہ نے ہشام بن عروہ سے، عروہ نے اپنے باپ زبیر سے روایت کیا ہے کہ عمر نے کہا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4571]
عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے اس بارے میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کے متعلق پوچھا تو حمل بن مالک بن نابغہ کھڑے ہوئے، اور بولے: میں دونوں عورتوں کے بیچ میں تھا، ان میں سے ایک نے دوسری کو لکڑی سے مارا تو وہ مر گئی اور اس کا جنین بھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جنین کے سلسلے میں ایک غلام یا لونڈی کی دیت کا، اور قاتلہ کو قتل کر دیئے جانے کا حکم دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نضر بن شمیل نے کہا: «مسطح» چوپ یعنی (روٹی پکانے کی لکڑی) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ابو عبید نے کہا: «مسطح» خیمہ کی لکڑیوں میں سے ایک لکڑی ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4572]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/القسامة 33 (4720)، سنن ابن ماجہ/الدیات 11 (2641)، (تحفة الأشراف: 3444)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/364، 4/ 79)، سنن الدارمی/الدیات 21 (2427) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ أخرجه ابن ماجه (2641 وسنده صحيح) ورواه النسائي (4743 وسنده صحيح)
طاؤس کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ منبر پر کھڑے ہوئے، آگے راوی نے اسی مفہوم کی حدیث ذکر کی البتہ اس کا ذکر نہیں کیا کہ وہ قتل کی جائے، اور انہوں نے «بغرة عبد أو أمة» کا اضافہ کیا ہے، راوی کہتے ہیں: اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ اکبر! اگر ہم یہ حکم نہ سنے ہوتے تو اس کے خلاف فیصلہ دیتے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4573]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، وانظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 3444) (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ طاووس لم يسمع من عمر رضي اللّٰه عنه (قال أبو زرعة : طاوس عن عمر : مرسل / المراسيل ص 100)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 161
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے حمل بن مالک کے قصے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں تو اس نے بچہ کو جسے بال اگے ہوئے تھے ساقط کر دیا، وہ مرا ہوا تھا اور عورت بھی مر گئی، تو آپ نے وارثوں پر دیت کا فیصلہ کیا، اس پر اس کے چچا نے کہا: اللہ کے نبی! اس نے تو ایک ایسا بچہ ساقط کیا ہے جس کے بال اگ آئے تھے، تو قاتل عورت کے باپ نے کہا: یہ جھوٹا ہے، اللہ کی قسم! نہ تو وہ چیخا، نہ پیا، اور نہ کھایا، اس جیسے کا خون تو معاف (رائیگاں) قرار دے دیا جاتا ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا جاہلیت جیسی مسجع عبارت بولتے ہو جیسے کاہن بولتے ہیں، بچے کی دیت ایک غلام یا لونڈی کی دینی ہو گی“۔ ابن عباس کہتے ہیں: ان میں سے ایک کا نام ملیکہ اور دوسری کا ام غطیف تھا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4574]
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں سے ایک نے دوسری کو قتل کر دیا، ان میں سے ہر ایک کے شوہر بھی تھا، اور اولاد بھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتولہ کی دیت قاتلہ کے عصبات پر ٹھہرائی اور اس کے شوہر اور اولاد سے کوئی مواخذہ نہیں کیا، مقتولہ کے عصبات نے کہا: کیا اس کی میراث ہمیں ملے گی؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، اس کی میراث تو اس کے شوہر اور اولاد کی ہو گی“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4575]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں جھگڑا ہوا، ان میں سے ایک نے دوسری کو پتھر پھینک کر مارا تو اسے قتل ہی کر ڈالا، تو لوگ مقدمہ لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو آپ نے فیصلہ کیا: ”جنین کی دیت ایک غلام یا لونڈی ہے، اور عورت کی دیت کا فیصلہ کیا کہ یہ اس کے عصبہ پر ہو گی“ اور اس دیت کا وارث مقتولہ کی اولاد کو اور ان کے ساتھ کے لوگوں کو قرار دیا۔ حمل بن مالک بن نابغہ ہذلی نے کہا: اللہ کے رسول! میں ایسی جان کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ پیا، نہ کھایا، نہ بولا، اور نہ چیخا، ایسے کا خون تو لغو قرار دے دیا جاتا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ کاہنوں کا بھائی معلوم ہوتا ہے“ آپ نے یہ بات اس کی اس «سجع» تعبیر کی وجہ سے کہی جو اس نے کی تھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4576]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس قصے میں روایت ہے، وہ کہتے ہیں پھر وہ عورت، جس کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لونڈی یا غلام کا فیصلہ کیا تھا، مر گئی، تو آپ نے فیصلہ فرمایا کہ اس کی میراث اس کے بیٹوں کی ہے، اور دیت قاتلہ کے عصبہ پر ہو گی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4577]
بریدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے دوسری عورت کو پتھر مارا تو اس کا حمل گر گیا، یہ مقدمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے جایا گیا تو آپ نے اس بچہ کی دیت پانچ سو بکریاں مقرر فرمائی، اور لوگوں کو پتھر مارنے سے اسی دن سے منع فرما دیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: روایت اسی طرح ہے ”پانچ سو بکریوں کی“ لیکن صحیح ”سو بکریاں“ ہے، اسی طرح عباس نے کہا ہے حالانکہ یہ وہم ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4578]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیٹ کے بچے میں ایک غلام یا ایک لونڈی یا ایک گھوڑے یا ایک خچر کی دیت کا فیصلہ کیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اس حدیث کو حماد بن سلمہ اور خالد بن عبداللہ نے محمد بن عمرو سے روایت کیا ہے البتہ ان دونوں نے «أو فرس أو بغل» کا ذکر نہیں کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4579]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، انظر حدیث رقم: (4576)، (تحفة الأشراف: 15078)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/438، 498) (شاذ)»
قال الشيخ الألباني: شاذ
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن¤ مشكوة المصابيح (3503)¤ أخرجه ابن ماجه (2639 وسنده حسن)
شعبی کہتے ہیں کہ غرہ (غلام یا لونڈی) کی قیمت پانچ سو درہم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: ربیعہ نے کہا: غرہ (غلام یا لونڈی) پچاس دینار کا ہوتا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الدِّيَاتِ/حدیث: 4580]
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ شريك ومغيرة عنعنا و جابر الجعفي ضعيف مدلس وقال الحافظ ابن حجر : ضعفه الجمھور (طبقات المدلسين 5/133) وقال العراقي : ضعفه الجمھور (تخريج احياء علوم الدين 285/4)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 161