الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
22. باب فِي الْقُرْآنِ
22. باب: قرآن کے کلام اللہ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4734
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أنبأنا إِسْرَائِيلُ، أخبرنا عُثْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْرِضُ نَفْسَهُ عَلَى النَّاسِ فِي الْمَوْقِفِ، فَقَالَ: أَلَا رَجُلٌ يَحْمِلُنِي إِلَى قَوْمِهِ، فَإِنَّ قُرَيْشًا قَدْ مَنَعُونِي أَنْ أُبَلِّغَ كَلَامَ رَبِّي".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود کو موقف (عرفات میں ٹھہرنے کی جگہ) میں لوگوں پر پیش کرتے تھے اور فرماتے: کیا کوئی ایسا شخص نہیں ہے جو مجھے اپنی قوم کے پاس لے چلے، قریش نے مجھے میرے رب کا کلام پہنچانے سے روک دیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4734]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/فضائل القرآن 24 (2925)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (201)، (تحفة الأشراف: 2241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/390)، دی/فضائل 5 (3397) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم موسم حج میں مختلف قبائل کے پاس جاتے اور ان میں دین اسلام کی تبلیغ کرتے تھے، اسی کی طرف اشارہ ہے، اس حدیث میں قرآن کو کلام اللہ فرمایا گیا ہے جس سے معتزلہ وغیرہ کی تردید ہوتی ہے جو کلام اللہ کو اللہ کی صفت نہ مان کر اس کو مخلوق کہتے تھے، سلف صالحین نے قرآن کو مخلوق کہنے والے گروہ کی تکفیر کی ہے، جب کہ قرآنی نصوص، احادیث شریفہ اور آثار سلف سے قرآن کا کلام اللہ ہونا، اور کلام اللہ کا صفت باری تعالیٰ ہونا ثابت ہے، اور اس پر سلف کا اجماع ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ أخرجه الترمذي (2925 وسنده صحيح)

حدیث نمبر: 4735
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أنبأنا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ بْنُ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ، وَسَعِيدُ بْنُ الْمُسَيِّبِ، وَعَلْقَمَةُ بْنُ وَقَّاصٍ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ، وَكُلٌّ حَدَّثَنِي طَائِفَةً مِنَ الْحَدِيثِ , قَالَتْ:" وَلَشَأْنِي فِي نَفْسِي كَانَ أَحْقَرَ مِنْ أَنْ يَتَكَلَّمَ اللَّهُ فِيَّ بِأَمْرٍ يُتْلَى".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں میرے جی میں میرا معاملہ اس سے کمتر تھا کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں ایسی گفتگو فرمائے گا کہ وہ ہمیشہ تلاوت کی جائے گی ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4735]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشھادت 15 (2661)، المغازي 12 (4025)، 34 (4141)، صحیح مسلم/التوبة 10 (2770)، (تحفة الأشراف: 16126، 16128، 16311، 16576، 17409، 17412) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتی تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کلام کرے، اور قرآن میں اس کو نازل فرما دے جو ہمیشہ تلاوت کیا جائے، ان کا اشارہ واقعہ افک کی طرف تھا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ رواه البخاري (7500) ومسلم (2770) مطولًا

حدیث نمبر: 4736
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عُمَرَ، أنبأنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ مُجَالِدٍ، عَنْ عَامِرٍ يَعْنِي الشَّعْبِيَّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَهْرٍ، قَالَ:" كُنْتُ عِنْدَ النَّجَاشِيِّ، فَقَرَأَ ابْنٌ لَهُ آيَةً مِنَ الْإِنْجِيلِ، فَضَحِكْتُ، فَقَالَ: أَتَضْحَكُ مِنْ كَلَامِ اللَّهِ؟".
عامر بن شہر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نجاشی کے پاس تھا کہ ان کے ایک لڑکے نے انجیل کی ایک آیت پڑھی، تو میں ہنس پڑا انہوں نے کہا: کیا تم اللہ کے کلام پر ہنستے ہو؟ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4736]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 5044)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/428، 429، 4/260) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ مجالد ضعيف¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 165

حدیث نمبر: 4737
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، أخبرنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ الْمِنْهَالِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ: أُعِيذُكُمَا بِكَلِمَاتِ اللَّهِ التَّامَّةِ مِنْ كُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ، وَمِنْ كُلِّ عَيْنٍ لَامَّةٍ , ثُمَّ يَقُولُ: كَانَ أَبُوكُمْ يُعَوِّذُ بِهِمَا إِسْمَاعِيلَ، وَإِسْحَاق"، قَالَ أَبُو دَاوُد: هَذَا دَلِيلٌ عَلَى أَنَّ الْقُرْآنَ لَيْسَ بِمَخْلُوقٍ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کے لیے (ان الفاظ میں) اللہ تعالیٰ پناہ مانگتے تھے «أعيذكما بكلمات الله التامة من كل شيطان وهامة ومن كل عين لامة» میں تم دونوں کے لیے پناہ مانگتا ہوں اللہ کے پورے کلمات کے ذریعہ، ہر شیطان سے، ہر زہریلے کیڑے (سانپ بچھو وغیرہ) سے اور ہر نظر بد والی آنکھ سے پھر فرماتے: تمہارے باپ (ابراہیم) اسماعیل و اسحاق کے لیے بھی انہی کلمات کے ذریعہ پناہ مانگتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مخلوق نہیں ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4737]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 10 (3371)، سنن الترمذی/الطب 18 (2060)، سنن ابن ماجہ/الطب 36 (3525)، (تحفة الأشراف: 5627)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/236، 270) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (3371)

حدیث نمبر: 4738
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ أَبِي سُرَيْجٍ الرَّازِيُّ، وَعَلِيُّ بْنُ الْحُسَيْنِ ابْنِ إِبْرَاهِيمَ، وَعَلِيُّ بْنُ مُسْلِمٍ، قَالُوا: أخبرنا أَبُو مُعَاوِيَةَ، أنبأنا الْأَعْمَشُ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا تَكَلَّمَ اللَّهُ بِالْوَحْيِ، سَمِعَ أَهْلُ السَّمَاءِ لِلسَّمَاءِ صَلْصَلَةً، كَجَرِّ السِّلْسِلَةِ عَلَى الصَّفَا، فَيُصْعَقُونَ، فَلَا يَزَالُونَ كَذَلِكَ حَتَّى يَأْتِيَهُمْ جِبْرِيلُ، حَتَّى إِذَا جَاءَهُمْ جِبْرِيلُ فُزِّعَ عَنْ قُلُوبِهِمْ، قَالَ: فَيَقُولُونَ: يَا جِبْرِيلُ، مَاذَا قَالَ رَبُّكَ؟ فَيَقُولُ: الْحَقَّ، فَيَقُولُونَ: الْحَقَّ، الْحَقَّ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ وحی کے لیے کلام کرتا ہے تو سبھی آسمان والے آواز سنتے ہیں جیسے کسی چکنے پتھر پر زنجیر کھینچی جا رہی ہو، پھر وہ بیہوش کر دئیے جاتے ہیں اور اسی حال میں رہتے ہیں یہاں تک کہ ان کے پاس جبرائیل آتے ہیں، جب جبرائیل ان کے پاس آتے ہیں تو ان کی غشی جاتی رہتی ہے، پھر وہ کہتے ہیں: اے جبرائیل! تمہارے رب نے کیا کہا؟ وہ کہتے ہیں: حق (فرمایا) تو وہ سب کہتے ہیں حق (فرمایا) حق (فرمایا)۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4738]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 9580)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/التوحید 31 (عقیب 7480تعلیقًا) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ أخرجه ابن خزيمة في التوحيد (283، نسخة أخريٰ 209 وسنده صحيح موقوفًا) وللحديث شواھد عند البخاري (7481)