الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب السُّنَّةِ
کتاب: سنتوں کا بیان
27. باب فِي الْمَسْأَلَةِ فِي الْقَبْرِ وَعَذَابِ الْقَبْرِ
27. باب: قبر میں سوال کئے جانے اور قبر کے عذاب کا بیان۔
حدیث نمبر: 4745
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، وَمُسَدَّدٌ، قَالَا: أخبرنا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَمَامَكُمْ حَوْضًا، مَا بَيْنَ نَاحِيَتَيْهِ كَمَا بَيْنَ جَرْبَاءَ وَأَذْرُحَ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے سامنے (قیامت کے دن) ایک حوض ہو گا، جس کے دونوں کناروں کے درمیان اتنا فاصلہ ہے جتنا «جرباء» اور «اذرح» ۱؎ کے درمیان ہے ۲؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4745]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الفضائل 9 (2299)، (تحفة الأشراف: 7538)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 53 (6577)، مسند احمد (2/21، 6/125) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «جرباء» اور «اذرح» نام ہیں شام میں دو گاؤں کے ان کے درمیان تین دن کی مسافت کا فاصلہ ہے۔
۲؎: حوض کے حدود کے بارے میں مختلف بیانات وارد ہیں، ان سے تحدید مقصود نہیں بلکہ مسافت کا طول مراد ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2299)¤ وأصله عند البخاري (6577)

حدیث نمبر: 4746
حَدَّثَنَا حَفْصُ بْنُ عُمَرَ النَّمَرِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلْنَا مَنْزِلًا، فَقَالَ:" مَا أَنْتُمْ جُزْءٌ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ جُزْءٍ مِمَّنْ يَرِدُ عَلَيَّ الْحَوْضَ"، قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كُنْتُمْ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: سَبْعُ مِائَةٍ، أَوْ ثَمَانِ مِائَةٍ.
زید بن ارقم رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو آپ نے فرمایا: تم لوگ ان لوگوں کے ایک لاکھ حصوں میں کا ایک حصہ بھی نہیں ہو جو لوگ حشر میں حوض کوثر پر آئیں گے۔ راوی (ابوحمزہ) کہتے ہیں: میں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے کہا: اس دن آپ لوگ کتنے تھے؟ کہا: سات سویا آٹھ سو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4746]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 3666)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/367، 369، 371) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح¤ مشكوة المصابيح (5593)¤

حدیث نمبر: 4747
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ، أخبرنا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْمُخْتَارِ بْنِ فُلْفُلٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَنَسَ بْنَ مَالِكٍ، يَقُولُ:" أَغْفَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِغْفَاءَةً، فَرَفَعَ رَأْسَهُ مُتَبَسِّمًا، فَإِمَّا قَالَ لَهُمْ، وَإِمَّا قَالُوا لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لِمَ ضَحِكْتَ؟ فَقَالَ: إِنَّهُ أُنْزِلَتْ عَلَيَّ آنِفًا سُورَةٌ، فَقَرَأَ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ حَتَّى خَتَمَهَا، فَلَمَّا قَرَأَهَا، قَالَ: هَلْ تَدْرُونَ مَا الْكَوْثَرُ؟ , قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ نَهْرٌ وَعَدَنِيهِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ فِي الْجَنَّةِ، وَعَلَيْهِ خَيْرٌ كَثِيرٌ، عَلَيْهِ حَوْضٌ تَرِدُ عَلَيْهِ أُمَّتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ، آنِيَتُهُ عَدَدُ الْكَوَاكِبِ".
مختار بن فلفل کہتے ہیں کہ میں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: (ایک بار) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہلکی اونگھ طاری ہوئی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسکراتے ہوئے سر اٹھایا، تو یا تو آپ نے لوگوں سے کہا، یا لوگوں نے آپ سے کہا: اللہ کے رسول! آپ کو ہنسی کیوں آئی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابھی میرے اوپر ایک سورت نازل ہوئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا: «بسم الله الرحمن الرحيم إنا أعطيناك الكوثر» یہاں تک کہ سورت ختم کر لی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے پڑھ چکے تو آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کوثر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جنت کی ایک نہر ہے جس کا وعدہ مجھ سے میرے رب نے کیا ہے اور اس پر بڑا خیر ہے، اس پر ایک حوض ہے جس پر قیامت کے دن میری امت (پینے) آئے گی، اس کے برتن ستاروں کی تعداد میں ہوں گے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4747]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (784)، (تحفة الأشراف: 1575) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (400)¤ مشكوة المصابيح (5929)¤ وانظر الحديث السابق (784)

حدیث نمبر: 4748
حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ النَّضْرِ، أخبرنا الْمُعْتَمِرُ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي، قَالَ: أخبرنا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ:" لَمَّا عُرِجَ بِنَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْجَنَّةِ، أَوْ كَمَا قَالَ: عُرِضَ لَهُ نَهْرٌ حَافَتَاهُ الْيَاقُوتُ الْمُجَيَّبُ، أَوْ قَالَ: الْمُجَوَّفُ، فَضَرَبَ الْمَلَكُ الَّذِي مَعَهُ يَدَهُ، فَاسْتَخْرَجَ مِسْكًا، فَقَالَ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْمَلَكِ الَّذِي مَعَهُ: مَا هَذَا؟ , قَالَ: الْكَوْثَرُ الَّذِي أَعْطَاكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں جب اللہ کے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معراج میں جنت میں لے جایا گیا تو آپ کے سامنے ایک نہر لائی گئی، جس کے دونوں کنارے «مجیّب» یا کہا «مجوّف» (خول دار) یاقوت کے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جو فرشتہ تھا اس نے اپنا ہاتھ مارا اور اندر سے مشک نکالی، تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ والے فرشتے سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے کہا: یہی کوثر ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا کیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4748]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1234)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الرقاق 53 (6581)، التوحید 37 (7516) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري (4964)¤

حدیث نمبر: 4749
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، أخبرنا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ أَبُو طَالُوتَ، قَالَ: شَهِدْتُ أَبَا بَرْزَةَ دَخَلَ عَلَى عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ، فَحَدَّثَنِي فُلَانٌ، سَمَّاهُ مُسْلِمٌ، وَكَانَ فِي السِّمَاطِ، فَلَمَّا رَآهُ عُبَيْدُ اللَّهِ، قَالَ:" إِنَّ مُحَمَّدِيَّكُمْ هَذَا الدَّحْدَاحُ، فَفَهِمَهَا الشَّيْخُ، فَقَالَ: مَا كُنْتُ أَحْسَبُ أَنِّي أَبْقَى فِي قَوْمٍ يُعَيِّرُونِي بِصُحْبَةِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ عُبَيْدُ اللَّهِ: إِنَّ صُحْبَةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَكَ زَيْنٌ، غَيْرُ شَيْنٍ، قَالَ: إِنَّمَا بَعَثْتُ إِلَيْكَ لِأَسْأَلَكَ عَنِ الْحَوْضِ، سَمِعْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ فِيهِ شَيْئًا، فَقَالَ لَهُ أَبُو بَرْزَةَ: نَعَمْ، لَا مَرَّةً، وَلَا ثِنْتَيْنِ، وَلَا ثَلَاثًا، وَلَا أَرْبَعًا، وَلَا خَمْسًا، فَمَنْ كَذَّبَ بِهِ، فَلَا سَقَاهُ اللَّهُ مِنْهُ، ثُمَّ خَرَجَ مُغْضَبًا".
عبدالسلام بن ابی حازم ابوطالوت بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ عبیداللہ بن زیاد کے ہاں گئے، پھر مجھ سے فلاں شخص نے بیان کیا جو ان کی جماعت میں شریک تھا، (مسلم نے اس کا نام ذکر کیا ہے) جب انہیں عبیداللہ نے دیکھا تو بولا: دیکھو تمہارا یہ محمدی موٹا ٹھگنا ہے، تو شیخ (ابوبرزہ) اس کے اس طعنہ اور توہین کو سمجھ گئے اور بولے: مجھے یہ گمان نہ تھا کہ میں ایسے لوگوں میں باقی رہ جاؤں گا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کا مجھے طعنہ دیں گے، تو عبیداللہ نے ان سے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت تو آپ کے لیے فخر کی بات ہے، نہ کہ عیب کی، پھر کہنے لگا: میں نے آپ کو اس لیے بلایا ہے کہ میں آپ سے حوض کوثر کے بارے میں معلوم کروں، کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق کچھ ذکر فرماتے سنا ہے؟ تو ابوبرزہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ہاں ایک بار نہیں، دو بار نہیں، تین بار نہیں، چار بار نہیں، پانچ بار نہیں (یعنی بہت بار سنا ہے) تو جو شخص اسے جھٹلائے اللہ اسے اس حوض میں سے نہ پلائے، پھر غصے میں وہ نکل کر چلے گئے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب السُّنَّةِ/حدیث: 4749]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 11600)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/419، 421، 424، 426) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح¤ أخرجه أحمد (4/421) وللحديث شواھد عند أحمد (4/419، 425، 426)¤