الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
83. باب لاَ يَقُولُ الْمَمْلُوكُ ‏"‏ رَبِّي وَرَبَّتِي ‏"‏
83. باب: غلام یا لونڈی اپنے آقا یا مالکن کے لیے «رب» کا لفظ استعمال نہ کریں۔
حدیث نمبر: 4975
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ أَيُّوبَ , وَحَبِيبِ بْنِ الشَّهِيدِ , وَهِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَا يَقُولَنَّ أَحَدُكُمْ: عَبْدِي وَأَمَتِي، وَلَا يَقُولَنَّ الْمَمْلُوكُ: رَبِّي وَرَبَّتِي، وَلْيَقُلِ الْمَالِكُ: فَتَايَ وَفَتَاتِي، وَلْيَقُلِ الْمَمْلُوكُ: سَيِّدِي وَسَيِّدَتِي، فَإِنَّكُمُ الْمَمْلُوكُونَ، وَالرَّبُّ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی (اپنے غلام یا لونڈی کو) «عبدي» (میرا بندہ) اور «أمتي» (میری بندی) نہ کہے اور نہ کوئی غلام یا لونڈی (اپنے آقا کو) «ربي» (میرے مالک) اور «ربتي» (میری مالکن) کہے بلکہ مالک یوں کہے: میرے جوان! یا میری جوان! اور غلام اور لونڈی یوں کہیں: «سيدي» (میرے آقا) اور «سيدتي» (میری مالکن) اس لیے کہ تم سب مملوک ہو اور رب صرف اللہ ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4975]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 14429، 14459، 14523)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العتق 17 (2552)، صحیح مسلم/الألفاظ من الأدب 3 (2249)، مسند احمد (2/423، 463، 484، 491، 508) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 4976
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَمْرُو بْنُ الْحَارِثِ، أَنَّ أَبَا يُونُسَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ فِي هَذَا الْخَبَرِ وَلَمْ يَذْكُرِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَلْيَقُلْ: سَيِّدِي وَمَوْلَايَ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے لیکن اس میں انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نہیں کیا ہے اور اس میں یہ ہے فرمایا: اور چاہیئے کہ وہ «سيدي» (میرے آقا) اور «مولاى» (میرے مولی) کہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4976]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 15482) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 4977
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ مَيْسَرَةَ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا تَقُولُوا لِلْمُنَافِقِ: سَيِّدٌ، فَإِنَّهُ إِنْ يَكُ سَيِّدًا فَقَدْ أَسْخَطْتُمْ رَبَّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ".
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ منافق کو سید نہ کہو اس لیے کہ اگر وہ سید ہے (یعنی قوم کا سردار ہے یا غلام و لونڈی اور مال والا ہے) تو تم نے اپنے رب کو ناراض کیا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4977]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الیوم واللیة (244)، (تحفة الأشراف: 15482)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/346، 347) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: کیونکہ تم نے اسے سید کہہ کر اس کی تعظیم کی حالانکہ وہ تعظیم کا مستحق نہیں اور اگر وہ ان معانی میں سے کسی بھی اعتبار سے سید نہیں ہے تو تمہارا اسے سید کہنا کذب و نفاق ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ ضعيف¤ قتادة عنعن¤ ولحديثه شاهد ضعيف عند الحاكم (المستدرك 311/4)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 173