الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
كِتَاب الْأَدَبِ
کتاب: آداب و اخلاق کا بیان
---. باب
---. باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 4981
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ سَعِيدٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ رُفَيْعٍ، عَنْ تَمِيمٍ الطَّائِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ،" أَنَّ خَطِيبًا خَطَبَ عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ رَشِدَ، وَمَنْ يَعْصِهِمَا، فَقَالَ:" قُمْ أَوْ قَالَ: اذْهَبْ , فَبِئْسَ الْخَطِيبُ أَنْتَ".
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک خطیب نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس خطبہ دیا، تو اس نے (خطبہ میں) کہا: «من يطع الله ورسوله فقد رشد ومن يعصهما» جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے، وہ راہ راست پر ہے اور جو ان دونوں کی نافرمانی کرتا ہے ... (ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ) آپ نے فرمایا: کھڑے ہو جاؤ یا یوں فرمایا: چلے جاؤ تم بہت برے خطیب ہو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4981]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1099)، (تحفة الأشراف: 9850) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: علماء کا کہنا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خطیب کو اس لئے برا کہا کہ اس نے «من يعصهما»  کہہ کر اللہ اور رسول دونوں کو ایک ہی ضمیر میں جمع کر دیا تھا، خطبہ میں باتوں کو تفصیل سے کہنے کا موقع ہوتا ہے، اور سامعین میں ہر سطح کے لوگ ہوتے ہیں، مقام کا تقاضا تفصیل کا تھا یعنی: «من یعص اللہ ویعص رسولہ»  کہنے کا، تاکہ کسی طرح کا التباس نہ رہ جاتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (870)

حدیث نمبر: 4982
حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، عَنْ خَالِدٍ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ يَعْنِي الْحَذَّاءَ، عَنْ أَبِي تَمِيمَةَ، عَنْ أَبِي الْمَلِيحِ، عَنْ رَجُلٍ، قَالَ:" كُنْتُ رَدِيفَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَعَثَرَتْ دَابَّةٌ، فَقُلْتُ: تَعِسَ الشَّيْطَانُ , فَقَالَ: لَا تَقُلْ تَعِسَ الشَّيْطَانُ، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ تَعَاظَمَ حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ الْبَيْتِ، وَيَقُولُ: بِقُوَّتِي , وَلَكِنْ قُلْ: بِسْمِ اللَّهِ، فَإِنَّكَ إِذَا قُلْتَ ذَلِكَ تَصَاغَرَ حَتَّى يَكُونَ مِثْلَ الذُّباب".
ابوالملیح ایک شخص سے روایت کرتے ہیں کہ اس نے کہا: میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سوار تھا، کہ آپ کی سواری پھسل گئی، میں نے کہا: شیطان مرے، تو آپ نے فرمایا: یوں نہ کہو کہ شیطان مرے اس لیے کہ جب تم ایسا کہو گے تو وہ پھول کر گھر کے برابر ہو جائے گا، اور کہے گا: میرے زور و قوت کا اس نے اعتراف کر لیا، بلکہ یوں کہو: اللہ کے نام سے اس لیے کہ جب تم یہ کہو گے تو وہ پچک کر اتنا چھوٹا ہو جائے گا جیسے مکھی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4982]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 15600)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/59، 71) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 4983
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ. ح، وحَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا سَمِعْتَ، وَقَالَ مُوسَى: إِذَا قَالَ الرَّجُلُ هَلَكَ النَّاسُ فَهُوَ أَهْلَكُهُمْ" , قال أبو داود: قَالَ مَالِكٌ: إِذَا قَالَ ذَلِكَ تَحَزُّنًا لِمَا يَرَى فِي النَّاسِ: يَعْنِي فِي أَمْرِ دِينِهِمْ، فَلَا أَرَى بِهِ بَأْسًا، وَإِذَا قَالَ ذَلِكَ عُجْبًا بِنَفْسِهِ وَتَصَاغُرًا لِلنَّاسِ، فَهُوَ الْمَكْرُوهُ الَّذِي نُهِيَ عَنْهُ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سنو! (اور موسیٰ کی روایت میں یوں ہے، کہ جب آدمی کہے) کہ لوگ ہلاک ہو گئے تو وہی ان میں سب سے زیادہ ہلاک ہونے والا ہے ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: مالک نے کہا: جب وہ یہ بات دینی معاملات میں لوگوں کی روش دیکھ کر رنج سے کہے تو میں اس میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھتا، اور جب یہ بات وہ خود پر ناز کر کے اور لوگوں کو حقیر سمجھ کر کہے تو یہی وہ مکروہ و ناپسندیدہ چیز ہے، جس سے روکا گیا ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَدَبِ/حدیث: 4983]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/البر والصلة 41 (2623)، (تحفة الأشراف: 12623، 12741)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/27، 342) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مفہوم یہ ہے کہ جب کوئی شخص لوگوں کی عیب جوئی اور برائیاں برابر بیان کرتا رہے، اور اپنی زبان سے لوگوں کے فساد میں مبتلا ہونے اور ان کی ہلاکت و تباہی کا ذکر کرتا رہے گا تو ایسا شخص بسبب اس گناہ کے جو اسے اپنے اس کرتوت کی وجہ سے لاحق ہو رہا ہے سب سے زیادہ ہلاکت و بربادی کا مستحق ہے، اور بسا اوقات وہ خود پسندی کا بھی شکار ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم (2623)