ابورافع رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حسن بن علی کے کان میں جس وقت فاطمہ رضی اللہ عنہا نے انہیں جنا اذان کہتے دیکھا جیسے نماز کے لیے اذان دی جاتی ہے۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5105]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأضاحی 17 (1514)، (تحفة الأشراف: 12020)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/9، 391، 392) (ضعیف)» (اس کے راوی عاصم ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (1514)¤ عاصم بن عبيداللّٰه : ضعيف¤ وللحديث شاهدان عند البيهقي في شعب الإيمان (8619 عن الحسين بن علي) و (8620 عن ابن عباس) في الأول يحيي بن العلاء وھو كذاب¤ وفي الثاني محمد بن يونس الكديمي : كذاب وشيخه وشيخ شيخه ضعيفان¤ وأما الأذان في أذن المولود فصحيح بالإتفاق¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 177
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بچے لائے جاتے تھے تو آپ ان کے لیے برکت کی دعا فرماتے تھے، (یوسف کی روایت میں اتنا اضافہ ہے کہ) آپ ان کی تحنیک فرماتے یعنی کھجور چبا کر ان کے منہ میں دیتے تھے، البتہ انہوں نے برکت کی دعا فرمانے کا ذکر نہیں کیا ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5106]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 16854، 17241)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/46) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: تبرک کے لئے ضروری ہے کہ شخصیت متبرک ہو، رسول معصوم سے تحنیک کا فائدہ برکت کے یقینی طور پر حصول کی توقع تھی، بعد میں دوسری شخصیات سے تبرک اور تبریک کی بات خوش خیالی ہے، تحنیک کے اس واقعہ سے استدلال صحیح نہیں ہے، لیکن اگر تحنیک کا عمل حصول تبرک کے علاوہ دوسرے فوائد کے لئے کیا جائے تو اور بات ہے ایک تو یہی کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کے جذبہ سے، دوسرے طب و صحت کے قواعد و ضوابط کے نقطہ نظر سے وغیرہ وغیرہ۔ واللہ اعلم۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح، صحيح بخاري (6355) صحيح مسلم (286)
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تم میں «مغربون» دیکھے گئے ہیں“ آپ نے ”دیکھے گئے ہیں“ کہا یا اسی طرح کا کوئی اور لفظ کہا، میں نے پوچھا: «مغربون» کون ہیں؟ آپ نے فرمایا: ”وہ لوگ جن میں جنوں کی شرکت ہو ۱؎“۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5107]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 17978) (ضعیف الإسناد)» (اس کی راویہ ام حمید مجہول ہیں)
وضاحت: ۱؎: یہ شرکت چاہے اللہ کی یاد سے غفلت اور شیطان کی اتباع کی وجہ سے ہو یا زنا کی اولاد ہونے کی وجہ سے ہو، یا شیاطین کی صحبت سے پیدا ہوئے ہوں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن جريج عنعن وأبوه : لين وأم حميد لا يعرف حالھا (تق: 4087،8726)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 177