الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابي داود
أَبْوَابُ النَّوْمِ
ابواب: سونے سے متعلق احکام و مسائل
142. باب الاِسْتِئْذَانِ فِي الْعَوْرَاتِ الثَّلاَثِ
142. باب: پردے کے تینوں اوقات میں اجازت طلب کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5191
حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ، قَالَ: حَدَّثَنَا. ح وحَدَّثَنَا ابْنُ الصَّبَّاحِ بْنِ سُفْيَانَ , وَابْنُ عَبْدَةَ , وَهَذَا حَدِيثُهُ، قَالَا: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ، سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ، يَقُولُ:" لَمْ يُؤْمَرْ بِهَا أَكْثَرُ النَّاسِ آيَةَ الْإِذْنِ وَإِنِّي لَآمُرُ جَارِيَتِي هَذِهِ تَسْتَأْذِنُ عَلَيَّ"، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: وَكَذَلِكَ رَوَاهُ عَطَاءٌ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ يَأْمُرُ بِهِ.
عبیداللہ بن ابی یزید کہتے ہیں کہ انہوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما کو کہتے سنا کہ آیت استیذان پر اکثر لوگوں نے عمل نہیں کیا، لیکن میں نے تو اپنی لونڈی کو بھی حکم دے رکھا ہے کہ اسے بھی میرے پاس آنا ہو تو مجھ سے اجازت طلب کرے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ اس کا (استیذان کا) حکم دیتے تھے۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5191]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5869) (صحیح الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سفيان بن عينة مدلس و عنعن¤ وكان يدلس عن الثقات والمدلسين والضعفاء¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 179

حدیث نمبر: 5192
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ عِكْرِمَةَ، أَنَّ نَفَرًا مِنْ أَهْلِ الْعِرَاقِ، قَالُوا: يَا ابْنَ عَبَّاسٍ،" كَيْفَ تَرَى فِي هَذِهِ الْآيَةِ الَّتِي أُمِرْنَا فِيهَا بِمَا أُمِرْنَا وَلَا يَعْمَلُ بِهَا أَحَدٌ، قَوْلُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لِيَسْتَأْذِنْكُمُ الَّذِينَ مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ وَالَّذِينَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلاثَ مَرَّاتٍ مِنْ قَبْلِ صَلاةِ الْفَجْرِ وَحِينَ تَضَعُونَ ثِيَابَكُمْ مِنَ الظَّهِيرَةِ وَمِنْ بَعْدِ صَلاةِ الْعِشَاءِ ثَلاثُ عَوْرَاتٍ لَكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌ بَعْدَهُنَّ طَوَّافُونَ عَلَيْكُمْ سورة النور آية 58 , قَرَأَ الْقَعْنَبِيُّ إِلَى: عَلِيمٌ حَكِيمٌ سورة النور آية 58 , قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ اللَّهَ حَلِيمٌ رَحِيمٌ بِالْمُؤْمِنِينَ يُحِبُّ السَّتْرَ، وَكَانَ النَّاسُ لَيْسَ لِبُيُوتِهِمْ سُتُورٌ وَلَا حِجَالٌ فَرُبَّمَا دَخَلَ الْخَادِمُ أَوِ الْوَلَدُ أَوْ يَتِيمَةُ الرَّجُلِ وَالرَّجُلُ عَلَى أَهْلِهِ، فَأَمَرَهُمُ اللَّهُ بِالِاسْتِئْذَانِ فِي تِلْكَ الْعَوْرَاتِ، فَجَاءَهُمُ اللَّهُ بِالسُّتُورِ وَالْخَيْرِ، فَلَمْ أَرَ أَحَدًا يَعْمَلُ بِذَلِكَ بَعْدُ" , قَالَ أَبُو دَاوُدَ: حَدِيثُ عُبَيْدِ اللَّهِ وَعَطَاءٍ يُفْسِدُ هَذَا الْحَدِيثَ.
عکرمہ سے روایت ہے کہ عراق کے کچھ لوگوں نے کہا: ابن عباس! اس آیت کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے جس میں ہمیں حکم دیا گیا جو حکم دیا گیا لیکن اس پر کسی نے عمل نہیں کیا، یعنی اللہ تعالیٰ کے قول «يا أيها الذين آمنوا ليستأذنكم الذين ملكت أيمانكم والذين لم يبلغوا الحلم منكم ثلاث مرات من قبل صلاة الفجر وحين تضعون ثيابكم من الظهيرة ومن بعد صلاة العشاء ثلاث عورات لكم ليس عليكم ولا عليهم جناح بعدهن طوافون عليكم» اے ایمان والو! تمہارے غلاموں اور لونڈیوں کو اور تمہارے سیانے لیکن نابالغ بچوں کو تین اوقات میں تمہارے پاس اجازت لے کر ہی آنا چاہیئے نماز فجر سے پہلے، دوپہر کے وقت جب تم کپڑے اتار کر آرام کے لیے لیٹتے ہو، بعد نماز عشاء یہ تینوں وقت پردہ پوشی کے ہیں ان تینوں اوقات کے علاوہ اوقات میں کوئی مضائقہ نہیں ہے کہ تم ان کے پاس جاؤ، اور وہ تمہارے پاس آئیں۔ (النور: ۵۸) قعنبی نے آیت «عليم حكيم» تک پڑھی۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تعالیٰ حلیم (بردبار) ہے اور مسلمانوں پر رحیم (مہربان) ہے، وہ پردہ پوشی کو پسند فرماتا ہے، (یہ آیت جب نازل ہوئی ہے تو) لوگوں کے گھروں پر نہ پردے تھے، اور نہ ہی چلمن (سرکیاں)، کبھی کبھی ایسا ہوتا کہ کوئی خدمت گار کوئی لڑکا یا کوئی یتیم بچی ایسے وقت میں آ جاتی جب آدمی اپنی بیوی سے صحبت کرتا ہوتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے پردے کے ان اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے پردے دیے اور خیر (مال) سے نوازا، اس وقت سے میں نے کسی کو اس آیت پر عمل کرتے نہیں دیکھا ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عبیداللہ اور عطاء کی حدیث (جن کا ذکر اس سے پہلے آ چکا ہے) اس حدیث کی تضعیف کرتی ہے۔ ۳؎ یعنی یہ حدیث ان دونوں احادیث کی ضد ہے۔ [سنن ابي داود/أَبْوَابُ النَّوْمِ/حدیث: 5192]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 6180) (حسن الإسناد)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: پردے ڈال لینے اور دروازہ بند کر لینے کے بعد بالعموم اس کی ضرورت نہیں رہ گئی تھی اور کوئی ایسے اوقات میں دوسروں کے خلوت کدوں میں جاتا نہ تھا۔
۳؎: عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی ان دونوں روایتوں میں تطبیق اس طرح سے دی جاسکتی ہے کہ اذن (اجازت) لینے کا حکم اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ نہ ہو اور عدم اذن اس صورت میں ہے جب گھر میں دروازہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد موقوف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن¤ أخرجه ابن أبي حاتم في تفسيره (8/2632) وصححه ابن كثير (3/315 نسخة أخريٰ 6/89)