الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم
رسول اللہ صلى اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے فضائل و مناقب
13. بَابُ: فَضْلِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
13. باب: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے مناقب و فضائل۔
حدیث نمبر: 102
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنِي الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَقِيقٍ ، قَالَ، قُلْتُ لِعَائِشَةَ :" أَيُّ أَصْحَابِهِ كَانَ أَحَبَّ إِلَيْهِ؟، قَالَتْ: أَبُو بَكْرٍ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّهُمْ قَالَتْ: عُمَرُ، قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّهُمْ، قَالَتْ: أَبُو عُبَيْدَةَ".
عبداللہ بن شقیق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں آپ کو سب سے زیادہ کون محبوب تھا؟ کہا: ابوبکر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: عمر، میں نے پوچھا: پھر کون؟ کہا: ابوعبیدہ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 102]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/المنا قب 14، (3657)، (تحفة الأشراف: 16212)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/218) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: خلاصہ یہ ہے کہ محبت کے مختلف وجوہ و اسباب ہوتے ہیں، چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فاطمہ رضی اللہ عنہا سے محبت بیٹی ہونے کے اعتبار سے اور ان کے زہد و عبادت کی وجہ سے تھی، اور عائشہ رضی اللہ عنہا سے محبت زوجیت، دینی بصیرت، اور فہم و فراست کے سبب تھی، اور ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے محبت اسلام میں سبقت، دین کی بلندی، علم کی زیادتی، شریعت کی حفاظت اور اسلام کی تائید کے سبب تھی، شیخین کے یہ کمالات و مناقب کسی پر پوشیدہ نہیں، اور ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ سے محبت اس لئے تھی کہ ان کے ہاتھ پر متعدد فتوحات اسلام ہوئیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 103
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّلْحِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ خِرَاشٍ الْحَوْشَبِيُّ ، عَنِ الْعَوَّامِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا أَسْلَمَ عُمَرُ، نَزَلَ جِبْرِيلُ، فَقَالَ:" يَا مُحَمَّدُ لَقَدِ اسْتَبْشَرَ أَهْلُ السَّمَاءِ بِإِسْلَامِ عُمَرَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب عمر رضی اللہ عنہ نے اسلام قبول کیا تو جبرائیل علیہ السلام نازل ہوئے اور کہا: اے محمد! عمر کے قبول اسلام سے آسمان والے بہت ہی خوش ہوئے۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 103]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6417، ومصباح الزجاجة: 39) (ضعیف جدًا)» ‏‏‏‏ (سند میں عبداللہ بن خراش منکر الحدیث بلکہ بعضوں کے نزدیک کذاب ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عبد اللّٰه بن خراش: ضعفه الجمهور و قال الھيثمي: و ضعفه الجمھور (مجمع الزوائد 25/4)¤ و قال الحافظ ابن حجر: ضعيف و أطلق عليه ابن عمار الكذب (تقريب: 3293)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 378

حدیث نمبر: 104
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّلْحِيُّ ، أَنْبَأَنَا دَاوُدُ بْنُ عَطَاءٍ الْمَدِينِيُّ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَوَّلُ مَنْ يُصَافِحُهُ الْحَقُّ عُمَرُ، وَأَوَّلُ مَنْ يُسَلِّمُ عَلَيْهِ، وَأَوَّلُ مَنْ يَأْخُذُ بِيَدِهِ، فَيُدْخِلُهُ الْجَنَّةَ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: حق تعالیٰ سب سے پہلے قیامت کے دن عمر سے مصافحہ کریں گے، اور سب سے پہلے انہیں سے سلام کریں گے، اور سب سے پہلے ان کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل کریں گے۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 104]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 24، ومصباح الزجاجة: 40) (منکر جدًا)» ‏‏‏‏ (داود بن عطاء المدینی ضعیف ہیں، اور منکر الحدیث ہیں اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: منكر جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ داود بن عطاء: ضعيف (تقريب: 1801) والسند ضعفه البوصيري¤ وقال في داود بن عطاء: ’’ قد اتفقوا علي ضعفه ‘‘¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 379

حدیث نمبر: 105
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ أَبُو عُبَيْدٍ الْمَدِينِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، قَالَ: حَدَّثَنِي الزَّنْجِيُّ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اللَّهُمَّ أَعِزَّ الْإِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّةً".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اسلام کو خاص طور سے عمر بن خطاب کے ذریعہ عزت و طاقت عطا فرما۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 105]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17244، ومصباح الزجاجة: 42) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں زنجی بن خالد منکر الحدیث صاحب أوھام راوی ہیں، لیکن حدیث شواہد کی وجہ سے صحیح ہے، حدیث میں «خاصة» کا لفظ متابعت یا شاہد کے نہ ملنے سے ثابت نہیں ہے، ملاحظہ ہو: المشکاة: 6036، وصحیح السیرة النبویة)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله خاصة

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ مسلم بن خالد الزنجي: ضعيف،ضعفه النسائي (الضعفاء: 569) والجمھور وقال البخاري: ’’ منكر الحديث‘‘ (كتاب الضعفاء بتحقيقي: 352)¤ وانظر ضعيف سنن أبي داود (3510)¤ وللحديث شاھد معلول عندالحاكم (3/ 83 ح 4485)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 379

حدیث نمبر: 106
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَمَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَلِيًّا ، يَقُول:" خَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَبُو بَكْرٍ، وَخَيْرُ النَّاسِ بَعْدَ أَبِي بَكْرٍ، عُمَرُ".
عبداللہ بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے علی رضی اللہ عنہ کو کہتے سنا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر ابوبکر ہیں، اور ان کے بعد لوگوں میں سب سے بہتر عمر ہیں۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 106]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10189، ومصباح الزجاجة: 41)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/فضائل الصحابة 5 (3671)، سنن ابی داود/السنة 8 (4629) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 107
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَارِثِ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي سَعِيدُ بْنُ الْمُسَيَّبِ ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" بَيْنَا أَنَا نَائِمٌ رَأَيْتُنِي فِي الْجَنَّةِ، فَإِذَا أَنَا بِامْرَأَةٍ تَتَوَضَّأُ إِلَى جَانِبِ قَصْرٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟، فَقَالَتْ: لِعُمَرَ، فَذَكَرْتَ غَيْرَتَهُ، فَوَلَّيْتُ مُدْبِرًا"، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ:" فَبَكَى عُمَرُ، فَقَالَ: أَعَلَيْكَ بِأَبِي، وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ أَغَارُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے، آپ نے فرمایا: اس اثنا میں کہ میں سویا ہوا تھا، میں نے اپنے آپ کو جنت میں دیکھا، پھر اچانک میں نے ایک عورت کو دیکھا کہ ایک محل کے کنارے وضو کر رہی ہے، میں نے پوچھا: یہ محل کس کا ہے؟ اس عورت نے کہا: عمر کا (مجھے عمر کی غیرت یاد آ گئی تو میں پیٹھ پھیر کر واپس ہو گیا)۔ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: یہ سن کر عمر رضی اللہ عنہ رونے لگے، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کیا میں آپ سے غیرت کروں گا؟ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 107]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/بدء الخلق 8 (3242)، فضائل أصحاب النبي ﷺ 6 (3680)، التعبیر 32 (7025)، (تحفة الأشراف: 13214)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/فضائل الصحابة 2 (2395)، مسند احمد (2/339) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: وضو نظافت اور لطافت کے لئے تھا، نہ کہ رفع حدث اور طہارت کے لئے کیونکہ جنت شرعی امور و اعمال کے ادا کرنے کی جگہ نہیں ہے، اور اس حدیث سے عمر رضی اللہ عنہ کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اور انبیاء کا خواب وحی ہے، خواب و خیال نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 108
حَدَّثَنَا أَبُو سَلَمَةَ يَحْيَى بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ مَكْحُولٍ ، عَنْ غُضَيْفِ بْنِ الْحَارِثِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ وَضَعَ الْحَقَّ عَلَى لِسَانِ عُمَرَ يَقُولُ بِهِ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بیشک اللہ تعالیٰ نے عمر کی زبان پر حق رکھ دیا ہے، وہ حق ہی بولتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/باب فى فضائل اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم/حدیث: 108]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الخراج والإمارة 18 (2962)، (تحفة الأشراف: 11973)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/145، 165، 177) (صحیح) (تراجع الا ٔلبانی، رقم: 507)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح