الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
(أبواب كتاب السنة)
(ابواب کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت)
38. بَابُ: فَضْلِ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ
38. باب: قرآن سیکھنے اور سکھانے والوں کے فضائل و مناقب۔
حدیث نمبر: 211
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، وَسُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ شُعْبَة:" خَيْرُكُمْ"، وَقَالَ سُفْيَانُ:" أَفْضَلُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (شعبہ کہتے ہیں:) تم میں سب سے بہتر (کہا)، (اور سفیان نے کہا:) تم میں سب سے افضل (کہا) وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 211]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 21 (5027)، سنن ابی داود/الصلاة 349 (1452)، سنن الترمذی/فضائل القرآن 15 (2907)، (تحفة الأشراف: 9813)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 57، 58، 69)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 2 (3341) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی کلام اللہ چونکہ سب کلاموں سے افضل ہے، اس لئے اس کا سیکھنے والا اور سکھانے والا بھی افضل ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 212
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ السُّلَمِيِّ ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَفْضَلُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ".
عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے افضل وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 212]
تخریج الحدیث: «انظر ماقبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 213
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ نَبْهَانَ ، حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ بَهْدَلَةَ ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" خِيَارُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ"، قَالَ: وَأَخَذَ بِيَدِي فَأَقْعَدَنِي مَقْعَدِي هَذَا أُقْرِئُ.
سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرآن سیکھیں اور سکھائیں۔ عاصم کہتے ہیں: مصعب نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے میری اس جگہ پر بٹھایا تاکہ میں قرآن پڑھاؤں۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 213]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3944، ومصباح الزجاجة: 78)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/فضائل القرآن 2 (3382) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی سند میں مذکور راوی ''الحارث بن نبہان'' ضعیف ہے، لیکن متابعات وشواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1172)

وضاحت: ۱؎: عاصم بن بہدلہ: یہ عاصم بن ابی النجود ہیں، جو امام القراء ہیں، اور ان کی قراءت معتمد اور حجت مانی گئی ہے، اس وقت عاصم کی قراءت ہی عام اور مشہور قراءت ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف جدًا¤ قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف لضعف الحارث بن نبھان ‘‘ وھو متروك¤ والحديث السابق (الأصل: 211) يغني عن حديثه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382

حدیث نمبر: 214
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْأُتْرُجَّةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَرِيحُهَا طَيِّبٌ، وَمَثَلُ الْمُؤْمِنِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ التَّمْرَةِ طَعْمُهَا طَيِّبٌ وَلَا رِيحَ لَهَا، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الرَّيْحَانَةِ رِيحُهَا طَيِّبٌ وَطَعْمُهَا مُرٌّ، وَمَثَلُ الْمُنَافِقِ الَّذِي لَا يَقْرَأُ الْقُرْآنَ كَمَثَلِ الْحَنْظَلَةِ طَعْمُهَا مُرٌّ وَلَا رِيحَ لَهَا".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن پڑھنے والے مومن کی مثال سنترے کی سی ہے کہ اس کا مزہ بھی اچھا ہے اور بو بھی اچھی ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے مومن کی مثال کھجور کی سی ہے کہ اس کا مزہ اچھا ہے لیکن کوئی بو نہیں ہے، اور قرآن پڑھنے والے منافق کی مثال ریحانہ (خوشبودار گھاس وغیرہ) کی سی ہے کہ اس کی بو اچھی ہے لیکن مزہ کڑوا ہے، اور قرآن نہ پڑھنے والے منافق کی مثال تھوہڑ (اندرائن) جیسی ہے کہ اس کا مزہ کڑوا ہے، اور اس میں کوئی خوشبو بھی نہیں۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 214]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/فضائل القرآن 17 (5020)، 36 (5059)، الأطعمة 30 (5427)، التوحید 57 (7560)، صحیح مسلم/المسافرین 37 (797)، سنن ابی داود/الأدب 19 (4830)، سنن الترمذی/الأمثال 4 (2865)، سنن النسائی/الإیمان 32 (5041)، (تحفة الأشراف: 8981)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/ 397، 404، 408)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 8 (3366) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح بخاري

حدیث نمبر: 215
حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ أَبُو بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بُدَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ لِلَّهِ أَهْلِينَ مِنَ النَّاسِ"، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَنْ هُمْ؟ قَالَ:" هُمْ أَهْلُ الْقُرْآنِ أَهْلُ اللَّهِ وَخَاصَّتُهُ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سے کچھ اللہ والے ہیں، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ قرآن پڑھنے پڑھانے والے ہیں، جو اللہ والے اور اس کے نزدیک خاص لوگ ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 215]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 241، ومصباح الزجاجة: 79)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری 26 (8031)، مسند احمد (3 /127، 128، 242)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 1 (3329) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱ ؎: قرآن والے یعنی خشوع و خضوع اور آداب کے ساتھ اس کی تلاوت کرنے والے، اور اس کے وعدہ اور وعید پر ایمان لانے والے، اور اس کے احکام پر چلنے والے اللہ تعالیٰ کے خاص لوگ ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 216
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ بْنِ سَعِيدِ بْنِ كَثِيرِ بْنِ دِينَارٍ الْحِمْصِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ ، عَنْ أَبِي عُمَرَ ، عَنْ كَثِيرِ بْنِ زَاذَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ، وَحَفِظَهُ أَدْخَلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ كُلُّهُمْ قَدِ اسْتَوْجَبُوا النَّارَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے قرآن پڑھا اور اسے یاد کیا، اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل کرے گا، اور اس کے اہل خانہ میں سے دس ایسے افراد کے سلسلے میں اس کی شفاعت قبول کرے گا جن پر جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 216]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 13 (2905)، (تحفة الأشراف: 10146)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/148، 149) (ضعیف جدًا)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو عمر حفص بن سلیمان متروک، اور کثیر بن زا ذان مجہول راوی ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف جدًا¤ ترمذي (2905)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382

حدیث نمبر: 217
حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأَوْدِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ الْمَقْبُرِيِّ ، عَنْ عَطَاءٍ مَوْلَى أَبِي أَحْمَدَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ، وَاقْرَءُوهُ، وَارْقُدُوا، فَإِنَّ مَثَلَ الْقُرْآنِ وَمَنْ تَعَلَّمَهُ فَقَامَ بِهِ، كَمَثَلِ جِرَابٍ مَحْشُوٍّ مِسْكًا يَفُوحُ رِيحُهُ كُلَّ مَكَانٍ، وَمَثَلُ مَنْ تَعَلَّمَهُ فَرَقَدَ وَهُوَ فِي جَوْفِهِ، كَمَثَلِ جِرَابٍ أُوكِيَ عَلَى مِسْكٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قرآن سیکھو اور اس کی تلاوت کرو، تب سوؤ کیونکہ قرآن اور اس کے سیکھنے والے اور رات کو قیام (نماز تہجد) میں قرآن پڑھنے والے کی مثال خوشبو بھری ہوئی تھیلی کی ہے جس کی خوشبو ہر طرف پھیل رہی ہو، اور اس شخص کی مثال جس نے قرآن سیکھا، مگر رات کو پڑھا نہیں ایسی خوشبو بھری تھیلی کی ہے جس کا منہ بندھا ہوا ہے۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 217]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/فضائل القرآن 2 (2876)، (تحفة الأشراف: 14242) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حدیث کی ترمذی نے تحسین کی ہے، لیکن عطاء مولی أبی احمد ضعیف ہے، اس لئے یہ اس سند سے ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 218
حَدَّثَنَا أَبُو مَرْوَانَ مُحَمَّدُ بْنُ عُثْمَانَ الْعُثْمَانِيُّ ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ وَاثِلَةَ أَبِي الطُّفَيْلِ ، أَنَّ نَافِعَ بْنَ عَبْدِ الْحَارِثِ ، لَقِيَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ بِعُسْفَانَ، وَكَانَ عُمَرُ اسْتَعْمَلَهُ عَلَى مَكَّةَ، فَقَالَ عُمَرُ: مَنِ اسْتَخْلَفْتَ عَلَى أَهْلِ الْوَادِي؟ قَالَ: اسْتَخْلَفْتُ عَلَيْهِمُ ابْنَ أَبْزَى، قَالَ: وَمَنْ ابْنُ أَبْزَى؟ قَالَ: رَجُلٌ مِنْ مَوَالِينَا، قَالَ عُمَرُ: فَاسْتَخْلَفْتَ عَلَيْهِمْ مَوْلًى، قَالَ: إِنَّهُ قَارِئٌ لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى، عَالِمٌ بِالْفَرَائِضِ، قَاضٍ، قَالَ عُمَرُ : أَمَا إِنَّ نَبِيَّكُمْ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال:" إِنَّ اللَّهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ".
عامر بن واثلہ ابوالطفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نافع بن عبدالحارث کی ملاقات عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ سے مقام عسفان میں ہوئی، عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ان کو مکہ کا عامل بنا رکھا تھا، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: تم کس کو اہل وادی (مکہ) پر اپنا نائب بنا کر آئے ہو؟ نافع نے کہا: میں نے ان پر اپنا نائب ابن ابزیٰ کو مقرر کیا ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا: ابن ابزیٰ کون ہے؟ نافع نے کہا: ہمارے غلاموں میں سے ایک ہیں ۱؎، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: تم نے ان پہ ایک غلام کو اپنا نائب مقرر کر دیا؟ نافع نے عرض کیا: ابن ابزیٰ کتاب اللہ (قرآن) کا قاری، مسائل میراث کا عالم اور قاضی ہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اگر بات یوں ہے تو تمہارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: اللہ تعالیٰ اس کتاب (قرآن) کے ذریعہ بہت سی قوموں کو سربلند، اور بہت سی قوموں کو پست کرتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 218]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المسا فرین 47 (817)، (تحفة الأشراف: 10479)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/ 35)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 9 (3368) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مولیٰ کے معنی رفیق، دوست، آزاد غلام، حلیف، عزیز اور قریب کے ہیں، اور ظاہر یہ ہے کہ یہاں آزاد غلام مراد ہے، اس لئے عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر تعجب کیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 219
حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْوَاسِطِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ غَالِبٍ الْعَبَّادَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيَادٍ الْبَحْرَانِيِّ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ آيَةً مِنْ كِتَابِ اللَّهِ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِائَةَ رَكْعَةٍ، وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ يُعْمَلْ، خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَكْعَةٍ".
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ابوذر! اگر تم صبح کو قرآن کی ایک آیت بھی سیکھ لو تو تمہارے لیے سو رکعت پڑھنے سے بہتر ہے، اور اگر تم صبح علم کا ایک باب سیکھو خواہ اس پر عمل کیا جائے یا نہ کیا جائے تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ایک ہزار رکعت پڑھو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/(أبواب كتاب السنة)/حدیث: 219]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11918، ومصباح الزجاجة: 80) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ سند ضعیف ہے، اس لئے کہ اس میں عبداللہ بن زیاد مجہول اور علی بن زید بن جدعان ضعیف ہیں)

وضاحت: ۱؎: اس سے معلوم ہوا کہ تفقہ قراءت سے افضل ہے، اور وہ دونوں ادائے نوافل سے افضل ہیں۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ علي بن زيد: ضعيف¤ و عبد اللّٰه بن زياد البحراني وعبد اللّٰه بن غالب العباداني: مستوران (تقريب: 3328 3527)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 382