الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الطهارة وسننها
کتاب: طہارت اور اس کے احکام و مسائل
5. بَابُ: الْوُضُوءُ شَطْرُ الإِيمَانِ
5. باب: وضو آدھا ایمان ہے۔
حدیث نمبر: 280
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ شَابُورَ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ ، عَنْ أَخِيهِ ، أَنَّهُ أَخْبَرَهُ، عَنْ جَدِّهِ أَبِي سَلَّامٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ أَبِي مَالِكٍ الْأَشْعَرِيِّ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِسْبَاغُ الْوُضُوءِ شَطْرُ الْإِيمَانِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ تَمْلأُ الْمِيزَانِ، وَالتَّسْبِيحُ وَالتَّكْبِيرُ مِلْءُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ، وَالصَّلَاةُ نُورٌ، وَالزَّكَاةُ بُرْهَانٌ، وَالصَّبْرُ ضِيَاءٌ، وَالْقُرْآنُ حُجَّةٌ لَكَ أَوْ عَلَيْكَ، كُلُّ النَّاسِ يَغْدُو فَبَائِعٌ نَفْسَهُ فَمُعْتِقُهَا، أَوْ مُوبِقُهَا".
ابومالک اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مکمل وضو کرنا نصف ایمان ہے ۱؎، اور «الحمد لله»  میزان کو (ثواب سے) بھر دیتا ہے، اور «سبحان الله»، «الله أكبر» آسمان و زمین کو (ثواب سے) بھر دیتے ہیں، نماز نور ہے، اور زکاۃ برہان (دلیل و حجت) ہے، اور صبر (دل کی) روشنی ہے، اور قرآن دلیل و حجت ہے، ہر شخص صبح کرتا ہے تو وہ اپنے نفس کو بیچنے والا ہوتا ہے، پھر وہ یا تو اسے (جہنم سے) آزاد کرا لیتا ہے یا ہلاک کر دیتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 280]
تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الزکاة 1 (2439)، (تحفة الأشراف: 12163)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الطہارة 1 (223)، سنن الترمذی/الدعوات 86 (3517)، مسند احمد (5/342، 343)، سنن الدارمی/الطہارة 2 (679) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: وضو نصف (آدھا) ایمان ہے کیونکہ اس سے ظاہری طہارت حاصل ہوتی ہے، اور یہ طہارت نماز کے لئے شرط ہے اس لئے اسے آدھے ایمان یا آدھی نماز سے تعبیر کیا گیا اور باطنی طہارت ایمان و اقرار توحید سے حاصل ہوتی ہے، زکاۃ کی ادائیگی سے ایمان کی سچائی کا پتہ چلتا ہے، صبر باعث نور و ضیاء ہے، اور ممکن ہے صبر سے مراد یہاں روزہ ہو، کیونکہ شہوات کے توڑنے میں اس کی تاثیر قوی ہے، اور یہ دل کی نورانیت کا باعث ہوتا ہے، قرآن پر عمل کرنے سے نجات، اور اس کو چھوڑ دینے سے ہلاکت کا قوی اندیشہ ہے، ہر شخص اپنے کردار و عمل سے اپنے نفس کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں لگا کر اس کو عذاب سے آزاد کرانے والا ہے، یا شیطان کی فرمانبرداری سے اس کے عذاب میں گرفتار کرنے والا ہے، اس حدیث سے حمد باری تعالیٰ اور تسبیح و تحمید کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ اس کے اجر و ثواب سے اعمال کی میزان بھاری ہو جائے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح