عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ اپنی داڑھی میں خلال کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 429]
وضاحت: ۱؎: داڑھی کے بالوں کا خلال مستحبات وضو میں سے ہے، جن کی داڑھی گھنی ہو انہیں اس کا زیادہ خیال رکھنا چاہئے، اسی طرح انگلیوں کے خلال کا بھی خیال رکھنا چاہئے، اگر یہ احساس ہو کہ پانی نہیں پہنچا ہو گا تو ضروری ہے۔
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو اپنی داڑھی میں دوبار خلال کرتے، اور اپنی انگلیوں میں بھی دوبار خلال کرتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 431]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1680، ومصباح الزجاجة: 177) (صحیح)» (سند میں یحییٰ بن کثیر اور یزید بن أبان الرقاشی دونوں ضعیف ہیں، لیکن یہ حدیث «مرتين» کے لفظ کے بغیر صحیح ہے، سنن أبی داود: 145، نیز ملاحظہ ہو: صحیح ابن ماجہ: 351، و الإرواء: 351)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون المرتين
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ وقال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف لضعف يحيي بن كثير و شيخه‘‘ شيخه يزيد بن أبان الرقاشي: ضعيف¤ وقال الحافظ في يحيي بن كثير أبي النضر: ضعيف (تقريب: 7631)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 393
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو کرتے تو اپنے گال کے دونوں طرف کچھ ملتے، پھر اپنی داڑھی میں انگلیوں کو نیچے سے داخل کر کے خلال کرتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 432]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7789، ومصباح الزجاجة: 178) (ضعیف)» (اس میں عبد الواحد بن قیس مختلف فیہ راوی ہیں، نیزملا حظہ ہو: صحیح ابی داود: 122)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عبدالواحد بن قيس: ضعيف يعتبر به في المتابعات والشواهد (التحرير: 4248) وضعفه الجمهور¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 393
ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، اور اپنی داڑھی کا خلال کیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 433]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3497، ومصباح الزجاجة: 179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/ 417) (صحیح)» (واصل الرقاشی اور أبو سورہ دونوں ضعیف راوی ہیں، لیکن متابعات وشواہد کی بناء پر یہ حدیث صحیح ہے، کما تقدم)