ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء دیر سے پڑھنا پسند فرماتے تھے، اور اس سے پہلے سونے اور اس کے بعد بات چیت کرنے کو ناپسند کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 701]
وضاحت: ۱؎: عشاء کی نماز سے پہلے سونے کو اکثر علماء نے مکروہ کہا ہے، بعضوں نے اس کی اجازت دی ہے، امام نووی نے کہا ہے کہ اگر نیند کا غلبہ ہو، اور نماز کی قضا کا اندیشہ نہ ہو تو سونے میں کوئی حرج نہیں، نیز بات چیت سے مراد لایعنی بات چیت ہے جس سے دنیا اور آخرت کا کوئی مفاد وابستہ نہ ہو۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے نہ سوئے، اور نہ اس کے بعد (بلا ضرورت) بات چیت کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 702]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17497، ومصباح الزجاجة: 258)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/264) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: بیکار اور غیر ضروری باتیں عشاء کے بعد کرنی مکروہ ہے، اور کراہت کی علت یہ ہے کہ شاید رات زیادہ گزر جائے اور تہجد کے لئے آنکھ نہ کھلے، یا فجر کی نماز اول وقت اور باجماعت ادا نہ ہو سکے، اور یہ وجہ بھی ہے کہ سوتے میں گویا آدمی مر جاتا ہے تو بہتر یہ ہے کہ خاتمہ عبادت پر ہو، نہ دنیا کی باتوں پر، اگر دین یا دنیا کی ضروری باتیں ہوں تو ان کا کرنا جائز ہے، دوسری حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کے بعد مسلمانوں کے کاموں کے متعلق ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما سے باتیں کیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کے بعد بات چیت پر ہماری مذمت فرمائی یعنی اس پر ہمیں جھڑکا اور ڈانٹا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 703]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9286 ومصباح الزجاجة: 703)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/389، 410) (صحیح) (ملاحظہ ہو سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2435)»
وضاحت: ۱؎: مشہور حسن کے نسخہ میں «زجرنا عنه» ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ قال البوصيري: ’’ …عطاء بن السائب اختلط بآخره۔ومحمد بن فضيل روي عنه بعد الإختلاط‘‘ وكذا سائر من رواه عنه ھذا الحديث (وانظر ضعيف سنن أبي داود: 2819)¤ ولأصل الحديث شواھد بغير ھذا اللفظ¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 403