انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ مسجد نبوی کی زمین قبیلہ بنو نجار کی ملکیت تھی، جس میں کھجور کے درخت اور مشرکین کی قبریں تھیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: ”تم مجھ سے اس کی قیمت لے لو“، ان لوگوں نے کہا: ہم ہرگز اس کی قیمت نہ لیں گے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد بنا رہے تھے اور صحابہ آپ کو (سامان دے رہے تھے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”سنو! زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے، اے اللہ! تو مہاجرین اور انصار کو بخش دے“، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: مسجد کی تعمیر سے پہلے جہاں نماز کا وقت ہو جاتا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہیں نماز پڑھ لیتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 742]
وضاحت: ۱؎: جس جگہ مسجد نبوی بنائی گئی وہ ویران اور غیر آباد جگہ تھی، اسی میں بعض مشرکین کی قبریں تھیں، جن کو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اکھاڑنے کا حکم دیا، تو قبریں اکھاڑ دیں گئیں، تب آپ نے مسجد کی بنیاد رکھی، تفصیل بخاری، مسلم، ابوداود وغیرہ کی روایات میں دیکھئے، نیز کوئی خاص جگہ متعین نہ تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جو فرمایا: ”زندگی تو دراصل آخرت کی زندگی ہے“ اگر سچ پوچھیں تو دنیا میں عیش ہی نہیں ہے کیونکہ اگر کوئی فکر نہ ہو جب بھی مرنے کی اور بیماری کی فکر لگی رہتی ہے، عیش تو اسی وقت سے شروع ہو گا جب کسی کو جنت میں جانے کا حکم ہو جائے گا، اے اللہ تعالیٰ ہم سب کو جنت نصیب فرمائے آمین۔
عثمان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا کہ طائف میں مسجد وہیں پہ تعمیر کریں جہاں پہ طائف والوں کا بت تھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 743]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 12 (450)، (تحفة الأشراف: 9769) (ضعیف)» (سند میں محمد بن عبد اللہ بن عیاض مجہول راوی ہے، نیز ملاحظہ ہو: ضعیف أبو داود: 66)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (450)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 405
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ان سے ان باغات میں نماز پڑھنے کے متعلق پوچھا گیا جن میں پاخانہ ڈالا جاتا ہے، انہوں نے کہا: جب ان باغات کو کئی بار پانی سے سینچا گیا ہو تو ان میں نماز پڑھ لو۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مرفوعاً روایت کرتے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المساجد والجماعات/حدیث: 744]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8419، ومصباح الزجاجة: 279) (ضعیف)» (سند میں محمد بن اسحاق مدلس ہیں، اور راویت عنعنہ سے ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ابن إسحاق عنعن¤ عمرو بن عثمان بن سيار الرقي: ضعيف (تقريب: 5074) والسند ضعفه البوصيري¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 406