ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب «سمع الله لمن حمده» کہہ لیتے تو «ربنا ولك الحمد» کہتے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 875]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث میں اور کئی دوسری حدیثوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ امام «سمع الله لمن حمده» کہے اور اس کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے اور مقتدی امام کے «ربنا ولك الحمد» کہنے کے بعد یہ کلمات کہے، علماء کے درمیان امام اور مقتدی دونوں کے بارے میں اختلاف ہے کہ کیا دونوں ہی یہ دونوں کلمات کہیں یا صرف امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی «ربنا ولك الحمد» پر اکتفاء کرے، یا امام «سمع الله لمن حمده» پڑھے اور مقتدی «ربنا ولك الحمد»، شافعیہ اور بعض محدثین کا مذہب ہے کہ امام دونوں کلمات کہے اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد» پڑھے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک امام صرف «سمع الله لمن حمده» کہے، اور مقتدی صرف «ربنا ولك الحمد»، ان کی دلیل یہ حدیث ہے کہ جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو، لیکن اس سے یہ کہاں نکلتا ہے کہ امام «ربنا ولك الحمد» نہ کہے، یا مقتدی «سمع الله لمن حمده» نہ کہے، دوسری متعدد صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کلمے کہتے تھے، اسی لئے امام طحاوی حنفی نے بھی اس مسئلہ میں ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے قول کو نہیں لیا، اور باتباع حدیث یہ حکم دیا ہے کہ امام دونوں کلمے کہے، اب رہ جاتا ہے کہ کیا مقتدی دونوں کلمے کہے یا صرف دوسرے کلمے پر اکتفاء کرے، جب کہ روایت ہے کہ «إن النبي صلی اللہ علیہ وسلم كان يقول: إنما جعل الإمام ليؤتم به... وإذا قال: سمع الله لمن حمده فقولوا: اللهم ربنا ولك الحمد يسمع الله لكم فإن الله تبارك وتعالى قال على لسان نبيه صلی اللہ علیہ وسلم: سمع الله لمن حمده»(صحیح مسلم، ابوعوانہ، مسند احمد، سنن ابی داود)”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ امام تو صرف اسی لیے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو اللہ تمہاری سنے گا، اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے یہ بات کہی ہے کہ اللہ کی جس نے حمد کی اللہ نے اس کی حمد سن لی“، محدث عصر امام البانی اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ مقتدی «سمع الله لمن حمده» کہنے میں امام کے ساتھ شرکت نہ کرے، جیسے اس میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ امام مقتدی کے قول «ربنا ولك الحمد» میں اس کا شریک نہیں ہے، اس لیے کہ اس رکن میں امام اور مقتدی کیا کہیں اس کے لیے یہ حدیث نہیں وارد ہوئی ہے بلکہ یہ واضح کرنے کے لیے یہ حدیث آئی ہے کہ مقتدی امام کے «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے، ایسے ہی حدیث: «صلوا كما رأيتموني أصلي» کے عموم کا تقاضا ہے کہ مقتدی بھی امام کی طرح «سمع الله لمن حمده» وغیرہ کہے، (صفۃ صلاۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم، والاختیارات الفقہیہ للإمام الالبانی ص ۱۲۵-۱۲۶)، خلاصہ یہ کہ امام اور مقتدی دونوں دونوں کلمات کہیں اور مقتدی امام کے «سمع الله لمن حمده» کہنے کے بعد «ربنا ولك الحمد» کہے، «واللہ اعلم» ۔
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «ربنا ولك الحمد» کہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 876]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ”جب امام «سمع الله لمن حمده» کہے تو تم «اللهم ربنا ولك الحمد» کہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 877]
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع سے اپنا سر اٹھاتے تو فرماتے: «سمع الله لمن حمده اللهم ربنا لك الحمد ملء السموات وملء الأرض وملء ما شئت من شيء بعد»، ”اللہ تعالیٰ نے اس شخص کی سن لی جس نے اس کی تعریف کی، اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے لیے آسمانوں اور زمین بھر کر حمد ہے، اور اس کے بعد اس چیز بھر کر جو تو چاہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 878]
ابوجحیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مال و دولت کا ذکر چھیڑا، آپ نماز میں تھے، ایک شخص نے کہا: فلاں کے پاس گھوڑوں کی دولت ہے، دوسرے نے کہا: فلاں کے پاس اونٹوں کی دولت ہے، تیسرے نے کہا: فلاں کے پاس بکریوں کی دولت ہے، چوتھے نے کہا: فلاں کے پاس غلاموں کی دولت ہے، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نماز سے فارغ ہوئے اور آخری رکعت کے رکوع سے اپنا سر اٹھایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «اللهم ربنا ولك الحمد ملئ السموات وملئ الأرض وملئ ما شئت من شيئ بعد اللهم لا مانع لما أعطيت ولا معطي لما منعت ولا ينفع ذا الجد منك الجد»”اے اللہ! اے ہمارے رب! تیرے لیے تعریف ہے، آسمانوں بھر، زمین بھر اور اس کے بعد اس چیز بھر جو تو چاہے، اے اللہ! نہیں روکنے والا کوئی اس چیز کو جو تو دے، اور نہیں دینے والا ہے کوئی اس چیز کو جسے تو روک لے، اور مالداروں کو ان کی مالداری تیرے مقابلہ میں نفع نہیں دے گی“، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے «جَدّ» کہنے میں اپنی آواز کو کھینچا تاکہ لوگ جان لیں کہ بات ایسی نہیں جیسی وہ کہہ رہے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 879]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11820، ومصباح الزجاجة: 325) (ضعیف)» (اس حدیث کی سند میں ابو عمرو مجہول ہیں، اس بناء پر یہ حدیث ضعیف ہے، لیکن حدیث میں مذکور دعاء «اللهم ربنا» صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح مسلم عن ابن عباس رضی اللہ عنہما، ومصباح الزجاجة)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ قال البوصيري: ’’ ھذا إسناد ضعيف،أبو عمر لا يعرف حاله‘‘¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 409