عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء میں آ کر نماز پڑھ رہے تھے، اتنے میں انصار کے کچھ لوگ آئے اور آپ کو سلام کرنے لگے، تو میں نے صہیب رضی اللہ عنہ سے پوچھا جو آپ کے ساتھ تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے سلام کا جواب کیسے دیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہاتھ کے اشارے سے جواب دے رہے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1017]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز سلام کا جواب زبان سے نہ دے ورنہ نماز فاسد ہو جائے گی، البتہ انگلی یا ہاتھ کے اشارے سے جواب دے سکتا ہے، اور اکثر علماء کا یہی قول ہے۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی ضرورت کے تحت بھیجا، جب میں واپس آیا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے آپ کو سلام کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے جواب دیا، جب آپ نماز سے فارغ ہو گئے تو مجھے بلایا، اور پوچھا: ”ابھی تم نے مجھے سلام کیا، اور میں نماز پڑھ رہا تھا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1018]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 7 (540)، سنن النسائی/السہو 6 (1190)، (تحفة الأشراف: 2913)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/334) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے فرمایا کہ جابر رضی اللہ عنہ کو جواب نہ دینے کی وجہ معلوم ہو جائے اور ان کے دل کو رنج نہ ہو، سبحان اللہ آپ کو اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کا کس قدر خیال تھا۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نماز میں سلام کیا کرتے تھے، پھر ہمیں ارشاد ہوا کہ نماز میں خود ایک مشغولیت ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1019]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9525، ومصباح الزجاجة: 365)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العمل في الصلاة 3 (1201)، 15 (1216)، المناقب 37 (3875)، صحیح مسلم/ المساجد 7 (538)، سنن ابی داود/الصلاة 170 (923)، مسند احمد (1/376، 409) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہیے، اور دوسرا کام نہیں کرنا چاہئے، وہ کام جس میں نمازی کو مصروف رہنا چاہئے اللہ تعالیٰ کی یاد ہے، اور اس سے خشوع کے ساتھ دل لگانا۔