الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
114. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي الْوِتْرِ
114. باب: وتر کا بیان۔
حدیث نمبر: 1168
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ الْمِصْرِيُّ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَاشِدٍ الزَّوْفِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُرَّةَ الزَّوْفِيِّ ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ حُذَافَةَ الْعَدَوِيِّ ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَمَدَّكُمْ بِصَلَاةٍ لَهِيَ خَيْرٌ لَكُمْ مِنْ حُمُرِ النَّعَمِ الْوِتْرُ، جَعَلَهُ اللَّهُ لَكُمْ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ إِلَى أَنْ يَطْلُعَ الْفَجْرُ".
خارجہ بن حذافہ عدوی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے اوپر مزید ایک نماز مقرر کی ہے، جو تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے بہتر ہے، وہ وتر کی نماز ہے، اللہ نے اسے تمہارے لیے عشاء سے لے کر طلوع فجر کے درمیان مقرر کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1168]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 336 (1418)، سنن الترمذی/الصلاة215 (452)، (تحفة الأشراف: 3450)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/الصلاة 208 (1617) (صحیح)» ‏‏‏‏ (اس سند میں عبد اللہ بن راشد مجہول ہیں، اس لئے «ھی خیر لکم من حمرالنعم» کا ٹکڑا ضیعف ہے، بقیہ حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 442 و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 108 و 1141، و ضعیف أبی داود: 255)

قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله هي خير لكم من حمر النعم

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (1418) ترمذي (452)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419

حدیث نمبر: 1169
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ السَّلُولِيِّ ، قَالَ: قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ : إِنَّ الْوِتْرَ لَيْسَ بِحَتْمٍ، وَلَا كَصَلَاتِكُمُ الْمَكْتُوبَةِ، وَلَكِنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْتَرَ، ثُمَّ قَالَ:" يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ، أَوْتِرُوا، فَإِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ".
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ وتر واجب نہیں ہے، اور نہ وہ فرض نماز کی طرح ہے، بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر پڑھی پھر فرمایا: اے قرآن والو! وتر پڑھو، اس لیے کہ اللہ طاق ہے، طاق (عدد) کو پسند فرماتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1169]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 336 (1416)، سنن الترمذی/الصلاة 216 (453)، سنن النسائی/قیام اللیل 27 (1676)، (تحفة الأشراف: 10135)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/100، 110، 143، 144، 148)، سنن الدارمی/الصلاة 209 (1621) (صحیح لغیرہ) (تراجع الألبانی: رقم: 482)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: قرآن والوں سے مراد قراء و حفاظ کی جماعت ہے، نہ کہ عامۃ الناس، اس کی تائید اگلی روایت میں «ليس لك ولا لأصحابك» کے جملہ سے ہو رہی ہے، جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک اعرابی سے کہا تھا، اس سے یہ معلوم ہوا کہ وتر واجب نہیں ہے، کیونکہ اگر واجب ہوتی تو حکم عام ہوتا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (1416) ترمذي (453) نسائي (1676)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419

حدیث نمبر: 1170
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو حَفْصٍ الْأَبَّارُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ وِتْرٌ يُحِبُّ الْوِتْرَ، أَوْتِرُوا يَا أَهْلَ الْقُرْآنِ"، فَقَالَ أَعْرَابِيٌّ: مَا يَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: لَيْسَ لَكَ وَلَا لِأَصْحَابِكَ.
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ طاق (یکتا و بے نظیر) ہے، طاق کو پسند فرماتا ہے، لہٰذا اے قرآن والو! وتر پڑھا کرو، ایک اعرابی (دیہاتی) نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں؟ تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لیے نہیں ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1170]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الصلاة 336 (1417)، (تحفة الأشراف: 9627) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (1417)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 419