مسروق کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز وتر کے متعلق پوچھا، تو انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھا، کبھی رات کے شروع حصے میں، کبھی درمیانی حصے میں، اور وفات کے قریبی ایام میں اپنا وتر صبح صادق کے قریب پڑھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1185]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وتر کو رات میں مختلف اوقات میں پڑھا ہے، لیکن اخیر عمر میں وتر کو صبح صادق کے قریب پڑھا ہے، تو ایسا ہی کرنا افضل ہے، بالخصوص ان لوگوں کے لئے جو اخیر رات میں تہجد کے لئے اٹھا کرتے ہیں، اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ابتدائی حصہ یا درمیانی حصہ میں پڑھا ہے تو اس سے جواز ثابت ہوتا ہے کیونکہ اس میں امت کے لئے آسانی ہے، «واللہ اعلم» ۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصہ میں کبھی شروع میں، اور کبھی بیچ میں، صبح صادق کے طلوع تک نماز وتر پڑھا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1186]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10145، ومصباح الزجاجة: 914)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/78، 86، 104، 137، 143، 147) (حسن صحیح)»
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کو یہ ڈر ہو کہ وہ رات کے آخری حصے میں بیدار نہ ہو سکے گا تو رات کی ابتداء ہی میں وتر پڑھ لے اور سو جائے، اور جس کو امید ہو کہ وہ رات کے آخری حصہ میں بیدار ہو جائے گا تو رات کے آخری حصہ میں وتر پڑھے کیونکہ آخر رات کی قراءت میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں اور یہ افضل ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1187]