الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
142. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي صَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ
142. باب: مرض الموت میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا بیان۔
حدیث نمبر: 1232
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَوَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ، وَقَالَ أَبُو مُعَاوِيَةَ: لَمَّا ثَقُلَ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ: مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ أَسِيفٌ تَعْنِي: رَقِيقٌ، وَمَتَى مَا يَقُومُ مَقَامَكَ يَبْكِي، فَلَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ، فَصَلَّى بِالنَّاسِ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ"، قَالَتْ: فَأَرْسَلْنَا إِلَى أَبِي بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ،" فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ إِلَى الصَّلَاةِ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ، وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ، فَلَمَّا أَحَسَّ بِهِ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَتَأَخَّرَ، فَأَوْمَى إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَكَانَكَ، قَالَ: فَجَاءَ حَتَّى أَجْلَسَاهُ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرض الموت میں مبتلا ہوئے (ابومعاویہ نے کہا: جب آپ مرض کی گرانی میں مبتلا ہوئے) تو بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، جب آپ کی جگہ کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، اور نماز نہ پڑھا سکیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، (تو بہتر ہو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ والیوں جیسی ہو، ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں کے سہارے نماز کے لیے نکلے، اور آپ کے پاؤں زمین پہ گھسٹ رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی آہٹ محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو ان دونوں آدمیوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے بائیں پہلو میں بیٹھا دیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1232]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 39 (664)، 67 (712)، 68 (713)، صحیح مسلم/الصلاة 22 (418)، ن الکبري/الأمانة 40 (907)، (تحفة الأشراف: 15945)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/قصرالصلاة 24 (83)، مسند احمد (5/261، 6/210، 224)، سنن الدارمی/المقدمة 14 (83) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1233
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا بَكْرٍ، أَنْ يُصَلِّيَ بِالنَّاسِ فِي مَرَضِهِ، فَكَانَ يُصَلِّي بِهِمْ، فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خِفَّةً، فَخَرَجَ وَإِذَا أَبُو بَكْرٍ يَؤُمُّ النَّاسَ، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ اسْتَأْخَرَ، فَأَشَارَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ كَمَا أَنْتَ، فَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِذَاءَ أَبِي بَكْرٍ إِلَى جَنْبِهِ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يُصَلِّي بِصَلَاةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يُصَلُّونَ بِصَلَاةِ أَبِي بَكْرٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مرض الموت میں ابوبکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، وہ لوگوں کو نماز پڑھایا کرتے تھے (ایک مرتبہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو باہر نکلے، اس وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ نماز پڑھا رہے تھے، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا: اپنی جگہ رہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر کے برابر ان کے پہلو میں بیٹھ گئے، ابوبکر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1233]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الأذان 47 (683)، صحیح مسلم/الصلاة 21 (418)، (تحفة الأشراف: 16979)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/231) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1234
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، أَنْبَأَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ دَاوُدَ مِنْ كِتَابِهِ فِي بَيْتِهِ، قَالَ سَلَمَةُ بْنُ نُبَيْطٍ : أَنْبَأَنَا، عَنْ نُعَيْمِ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ نُبَيْطِ بْنِ شَرِيطٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عُبَيْدٍ ، قَالَ: أُغْمِيَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، ثُمَّ أَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ:" أَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ؟"، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: إِنَّ أَبِي رَجُلٌ أَسِيفٌ، فَإِذَا قَامَ ذَلِكَ الْمَقَامَ يَبْكِي لَا يَسْتَطِيعُ، فَلَوْ أَمَرْتَ غَيْرَهُ، ثُمَّ أُغْمِيَ عَلَيْهِ، فَأَفَاقَ، فَقَالَ:" مُرُوا بِلَالًا فَلْيُؤَذِّنْ، وَمُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِبُ يُوسُفَ أَوْ صَوَاحِبَاتُ يُوسُفَ"، قَالَ: فَأُمِرَ بِلَالٌ فَأَذَّنَ، وَأُمِرَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَدَ خِفَّةً، فَقَالَ:" انْظُرُوا لِي مَنْ أَتَّكِئُ عَلَيْهِ"، فَجَاءَتْ بَرِيرَةُ وَرَجُلٌ آخَرُ فَاتَّكَأَ عَلَيْهِمَا، فَلَمَّا رَآهُ أَبُو بَكْرٍ ذَهَبَ لِيَنْكِصَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ أَنِ اثْبُتْ مَكَانَكَ،" ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِ أَبِي بَكْرٍ حَتَّى قَضَى أَبُو بَكْرٍ صَلَاتَهُ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُبِضَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، لَمْ يُحَدِّثْ بِهِ غَيْرُ نَصْرِ بْنِ عَلِيٍّ.
سالم بن عبید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مرض الموت میں بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش میں آئے، تو آپ نے پوچھا: کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ لوگوں نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہوئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا: کیا نماز کا وقت ہو گیا؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے کہا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان دیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تو عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میرے والد نرم دل آدمی ہیں، جب اس جگہ پر کھڑے ہوں گے تو رونے لگیں گے، نماز نہ پڑھا سکیں گے، اگر آپ ان کے علاوہ کسی اور کو حکم دیتے (تو بہتر ہوتا)! پھر آپ پر بے ہوشی طاری ہو گئی، پھر ہوش آیا، تو فرمایا: بلال کو حکم دو کہ وہ اذان کہیں، اور ابوبکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں، تم تو یوسف (علیہ السلام) کے ساتھ والیوں جیسی ہو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا، تو انہوں نے اذان دی، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ سے کہا گیا تو انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا تو فرمایا: دیکھو کسی کو لاؤ جس پر میں ٹیک دے کر (مسجد جا سکوں) بریرہ رضی اللہ عنہا اور ایک شخص آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر ٹیک لگایا، جب ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ کی آمد محسوس کی تو پیچھے ہٹنے لگے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پہلو میں بیٹھ گئے یہاں تک کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنی نماز پوری کی، پھر اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہو گیا۔ ابوعبداللہ ابن ماجہ کہتے ہیں کہ یہ حدیث غریب ہے، نصر بن علی کے علاوہ کسی اور نے اس کو روایت نہیں کیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1234]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3787، ومصباح الزجاجة: 433) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح

حدیث نمبر: 1235
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ الْأَرْقَمِ بْنِ شُرَحْبِيلَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَضَهُ الَّذِي مَاتَ فِيهِ كَانَ فِي بَيْتِ عَائِشَةَ، فَقَالَ:" ادْعُوا لِي عَلِيًّا"، قَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَدْعُو لَكَ أَبَا بَكْرٍ؟، قَالَ:" ادْعُوهُ"، قَالَتْ حَفْصَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَدْعُو لَكَ عُمَرَ؟ قَالَ:" ادْعُوهُ"، قَالَتْ أُمُّ الْفَضْلِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَدْعُو لَكَ الْعَبَّاسَ؟، قَالَ:" نَعَمْ، فَلَمَّا اجْتَمَعُوا رَفَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ، فَنَظَرَ فَسَكَتَ"، فَقَالَ عُمَرُ: قُومُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ جَاءَ بِلَالٌ يُؤْذِنُهُ بِالصَّلَاةِ، فَقَالَ:" مُرُوا أَبَا بَكْرٍ فَلْيُصَلِّ بِالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبَا بَكْرٍ رَجُلٌ رَقِيقٌ حَصِرٌ، وَمَتَى لَا يَرَاكَ يَبْكِي، وَالنَّاسُ يَبْكُونَ، فَلَوْ أَمَرْتَ عُمَرَ يُصَلِّي بِالنَّاسِ، فَخَرَجَ أَبُو بَكْرٍ فَصَلَّى بِالنَّاسِ،" فَوَجَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَفْسِهِ خِفَّةً، فَخَرَجَ يُهَادَى بَيْنَ رَجُلَيْنِ وَرِجْلَاهُ تَخُطَّانِ فِي الْأَرْضِ، فَلَمَّا رَآهُ النَّاسُ سَبَّحُوا بِأَبِي بَكْرٍ، فَذَهَبَ لِيَسْتَأْخِرَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْ مَكَانَكَ، فَجَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَلَسَ عَنْ يَمِينِهِ، وَقَامَ أَبُو بَكْرٍ، فَكَانَ أَبُو بَكْرٍ يَأْتَمُّ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالنَّاسُ يَأْتَمُّونَ بِأَبِي بَكْرٍ"، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ:" وَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْقِرَاءَةِ مِنْ حَيْثُ كَانَ بَلَغَ أَبُو بَكْرٍ"، قَالَ وَكِيعٌ: وَكَذَا السُّنَّةُ، قَالَ: فَمَاتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ ذَلِكَ.
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس بیماری میں مبتلا ہوئے جس میں آپ کی وفات ہوئی، اس وقت آپ عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علی (رضی اللہ عنہ) کو بلاؤ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں بلاؤ حفصہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! کیا عمر رضی اللہ عنہ کو بلا دیں؟ آپ نے فرمایا: بلا دو، ام الفضل نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم عباس کو بلا دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں جب سب لوگ جمع ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر اٹھا کر ان لوگوں کی طرف دیکھا، اور خاموش رہے، عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ جاؤ ۱؎، پھر بلال رضی اللہ عنہ آپ کو نماز کی اطلاع دینے کے لیے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر کو حکم دو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے رسول! ابوبکر رضی اللہ عنہ نرم دل آدمی ہیں، پڑھنے میں ان کی زبان رک جاتی ہے، اور جب آپ کو نہ دیکھیں گے تو رونے لگیں گے، اور لوگ بھی رونا شروع کر دیں گے، لہٰذا اگر آپ عمر رضی اللہ عنہ کو حکم دیں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں (تو بہتر ہو)، لیکن ابوبکر رضی اللہ عنہ نکلے، اور انہوں نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبیعت میں کچھ ہلکا پن محسوس کیا، تو دو آدمیوں پر ٹیک دے کر تشریف لائے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پاؤں زمین پر گھسٹ رہے تھے، جب لوگوں نے آپ کو آتے دیکھا تو ابوبکر رضی اللہ عنہ کو «سبحان الله» کہا، وہ پیچھے ہٹنے لگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اشارہ کیا کہ اپنی جگہ پر رہو، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف آئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دائیں جانب بیٹھ گئے، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کھڑے رہے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء کر رہے تھے، اور لوگ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی اقتداء کر رہے تھے، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءت وہاں سے شروع کی جہاں تک ابوبکر رضی اللہ عنہ پہنچے تھے ۲؎۔ وکیع نے کہا: یہی سنت ہے، راوی نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسی مرض میں انتقال ہو گیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1235]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5358، ومصباح الزجاجة: 434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/231، 232، 343، 355، 356، 357) (حسن)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو اسحاق مدلس راوی ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، اس لئے «علی» کے ذکر کے ساتھ یہ ضعیف ہے، لیکن دوسری حدیث سے تقویت پاکر یہ حسن ہے)

وضاحت: ۱؎: کیوں کہ بیماری کی وجہ سے آپ کو ہمارے بیٹھنے سے تکلیف ہو گی۔ ۲؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنی مرضی سے بلایا تھا، لیکن بیویوں کے اصرار سے اور لوگوں کو بھی بلا لیا تاکہ ان کا دل ناراض نہ ہو، اور چونکہ بہت سے لوگ جمع ہو گئے اس لئے آپ دل کی بات نہ کہنے پائے، اور سکوت فرمایا، اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کی فضیلت اور صحابہ پر ثابت ہوئی کہ آپ نے نماز کی امامت کے لئے ان کو منتخب فرمایا، اور امامت صغری قرینہ ہے امامت کبری کا، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جماعت میں شریک ہونا کیسا ضروری ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بیماری اور کمزوری کے باوجود حجرہ سے باہر مسجد تشریف لائے۔

قال الشيخ الألباني: حسن دون ذكر علي

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ أبو إسحاق عنعن¤ وللحديث شاهد ضعيف عند أحمد (209/1)¤ والخبر مخالف لحديث البخاري (687)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 420