الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
9. بَابُ: مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الرَّجُلِ امْرَأَتَهُ وَغُسْلِ الْمَرْأَةِ زَوْجَهَا
9. باب: شوہر بیوی کو اور بیوی شوہر کو غسل دے اس کا بیان۔
حدیث نمبر: 1464
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ خَالِدٍ الذَّهَبِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" لَوْ كُنْتُ اسْتَقْبَلْتُ مِنَ الأَمْرِ، مَا اسْتَدْبَرْتُ مَا غَسَّلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ نِسَائِهِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اگر مجھے اپنی اس بات کا علم پہلے ہی ہو گیا ہوتا جو بعد میں ہوا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیویاں ہی غسل دیتیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1464]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16182، ومصباح الزجاجة: 519)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الجنائز 32 (3141)، مسند احمد (6/267) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن منتقی ابن الجارو د، صحیح ابن حبان اور مستدرک الحاکم میں تحدیث کی صراحت ہے، دفاع عن الحدیث النبوی 53-54، والإرواء: 700)

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہے کیونکہ بیوی محرم راز ہوتی ہے، اور اس سے ستر بھی نہیں ہوتا، پس اس کا غسل دینا شوہر کو بہ نسبت دوسروں کے اولیٰ اور بہتر ہے، اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا، اور کسی صحابی نے اس پر نکیر نہیں کی، اور یہ مسئلہ اتفاقی ہے، نیز ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل نہ دے سکنے پر افسوس کا اظہار کیا ہے، اگر یہ جائز نہ ہوتا تو وہ افسوس کا اظہار نہ کرتیں، جیسا کہ امام بیہقی فرماتے ہیں: «فتلهفت على ذلك ولا يتلهف إلا على ما يجوز» ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 1465
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق ، عَنْ يَعْقُوبَ بْنِ عُتْبَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبَقِيعِ، فَوَجَدَنِي وَأَنَا أَجِدُ صُدَاعًا فِي رَأْسِي، وَأَنَا أَقُولُ وَا رَأْسَاهُ، فَقَالَ:" بَلْ أَنَا يَا عَائِشَةُ وَا رَأْسَاهُ، ثُمَّ قَالَ: مَا ضَرَّكِ لَوْ مِتِّ قَبْلِي، فَقُمْتُ عَلَيْكِ فَغَسَّلْتُكِ، وَكَفَّنْتُكِ، وَصَلَّيْتُ عَلَيْكِ، وَدَفَنْتُكِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع سے لوٹے تو مجھے اس حال میں پایا کہ میرے سر میں درد ہو رہا تھا، اور میں کہہ رہی تھی: ہائے سر!، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلکہ اے عائشہ! میں ہائے سر کہتا ہوں ۱؎، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا نقصان ہو گا اگر تم مجھ سے پہلے مرو گی تو تمہارے سارے کام میں انجام دوں گا، تمہیں غسل دلاؤں گا، تمہاری تکفین کروں گا، تمہاری نماز جنازہ پڑھاؤں گا، اور تمہیں دفن کروں گا۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1465]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 16313، ومصباح الزجاجة: 520)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/228)، سنن الدارمی/المقدمة 14 (81) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی اے عائشہ! بلکہ میرے سر میں درد ہو رہا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ الزھري مدلس وعنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 430