الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الجنائز
کتاب: صلاۃ جنازہ کے احکام و مسائل
49. بَابُ: مَا جَاءَ فِي النَّهْيِ عَنْ زِيَارَةِ النِّسَاءِ الْقُبُورَ
49. باب: عورتوں کے لیے زیارت قبور منع ہے۔
حدیث نمبر: 1574
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو بِشْرٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا قَبِيصَةُ . ح وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيّ ، حَدَّثَنَا الْفِرْيَابِيُّ ، وَقَبِيصَةُ كلهم، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ بْنِ خُثَيْمٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بَهْمَانَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زُوَّارَاتِ الْقُبُورِ".
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1574]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3403، ومصباح الزجاجة: 565)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/442، 443) (حسن)» ‏‏‏‏ (نیز ملاحظہ ہو: الإرواء)

وضاحت: ۱؎: یہ اور اس معنی کی دوسری احادیث سے یہ امر قوی ہوتا ہے کہ عورتوں کو قبروں کی زیارت کرنا منع ہے، اس حدیث میں زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے، اس لئے عام عورتوں کے لئے زیارت قبور کی اجازت اوپر کی (حدیث نمبر ۱۵۷۱) سے حاصل ہے، جس میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت کے بعد مسلمانوں کو زیارت قبور کا اذن عام دیا ہے، تاکہ وہ اس سے عبرت و موعظت حاصل کریں، اور عورتیں بھی اس سے عبرت و موعظت کے حصول میں مردوں کی طرح محتاج اور حقدار ہیں۔ اس سلسلے میں متعدد احادیث بھی ہیں۔ ۱- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو قبروں کی زیارت کی اجازت دی۔(سنن الاثرم ومستدرک الحاکم) ۲- صحیح مسلم میں ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا: اللہ کے رسول! جب میں قبروں کی زیارت کروں تو کیا کہوں؟۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا: کہو «السلام على أهل الديار من المؤمنين» ۔ ۳- حاکم نے روایت کی ہے کہ فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا اپنے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ کے قبر کی زیارت ہر جمعہ کو کیا کرتیں تھیں۔ ۴- صحیح بخاری میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عورت پر سے گزرے جو ایک قبر پر رو رہی تھی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر قبر کی زیارت کی وجہ سے نکیر نہیں فرمائی۔ اجازت اور عدم اجازت میں یوں مطابقت ہو سکتی ہے کہ ان عورتوں کے لئے ممانعت ہے جو زیارت میں مبالغہ سے کام لیں، یا زیارت کے وقت نوحہ وغیرہ کریں، اور ان عورتوں کے لئے اجازت ہے جو خلاف شرع کام نہ کریں۔ قرطبی نے کہا کہ لعنت ان عورتوں سے خاص ہے جو بہت زیادہ زیارت کو جائیں، کیونکہ حدیث میں زوارات القبور مبالغہ کا صیغہ منقول ہے، اور شاید اس کی وجہ یہ ہو گی کہ جب عورت اکثر زیارت کو جائے گی تو مرد کے کاموں اور ضرورتوں میں خلل واقع ہو گا۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 1575
حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جُحَادَةَ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زُوَّارَاتِ الْقُبُورِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1575]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الجنائز 82 (3236)، سنن الترمذی/الصلاة 122 (320)، سنن النسائی/الجنائز104 (2045)، (تحفة الأشراف: 5370)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/229، 324، 337) (حسن)» ‏‏‏‏ (سابقہ حدیث سے یہ حسن ہے، لیکن «زائرات» کے لفظ کی روایت ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن وروى بلفظ زائرات وهو ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: حسن

حدیث نمبر: 1576
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَلَفٍ الْعَسْقَلَانِيُّ أَبُو نَصْرٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ طَالِبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ:" لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زُوَّارَاتِ الْقُبُورِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی بہت زیادہ زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1576]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الجنائز 62 (1056)، (تحفة الأشراف: 14980)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/337، 356) (حسن)» ‏‏‏‏ (شواہد و متابعات کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ اس کی سند میں محمد بن طالب مجہول ہیں، ملاحظہ ہو: الإرواء: 762)

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن