زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی کسی روزہ دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزہ دار کے برابر ثواب ملے گا، اور روزہ دار کے ثواب میں سے کوئی کمی نہیں ہو گی“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1746]
وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ، روزہ دار کا روزہ افطار کرانا، اس میں بھی روزے کے برابر ثواب ہے، دوسری روایت میں ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہر شخص میں اتنی استعداد کہاں ہوتی ہے کہ روزہ دار کا روزہ افطار کرائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ثواب اس کو بھی ملے گا جو روزہ دار کا روزہ دودھ ملے ہوئے ایک گھونٹ پانی سے کھلوا دے، یا ایک کھجور، یا ایک گھونٹ پانی سے کھلوا دے، اور جو کوئی روزہ دار کو پیٹ بھر کے کھلا دے اس کو تو اللہ تعالی میرے حوض سے ایک گھونٹ پلائے گا، اس کے بعد وہ پیاسا نہ ہو گا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہو گا“(سنن بیہقی)۔
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے پاس افطار کیا اور فرمایا: ”تمہارے پاس روزہ رکھنے والوں نے افطار کیا، اور تمہارا کھانا، نیک لوگوں نے کھایا اور تمہارے لیے فرشتوں نے دعا کی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1747]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5287، ومصباح الزجاجة: 627) (صحیح)» (سند میں مصعب بن ثابت ضعیف ہیں، بالخصوص عبد اللہ بن زبیر سے روایت میں، لیکن قول رسول صحیح ہے، فعل رسول ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: آداب الزفاف: 85-86)
قال الشيخ الألباني: صحيح دون قوله أفطر رسول الله صلى الله عليه وسلم
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ مصعب بن ثابت الأسدي ضعيف¤ و روي الطحاوي في مشكل الآثار (1/ 498۔499) عن أنس ابن مالك قال: … فأتي إلي باب سعد بن عبادة … فدخل فجلس فقرب إليه سعد طعامًا فأصاب النبي ﷺ فلما أراد النبي صلي اللّٰه عليه و آله وسلم أن ينصرف قال: ((أكل طعامكم الأبرار و أفطر عندكم الصائمون و صلت عليكم الملائكة)) و سنده حسن،انظر سنن أبي داود (بتحقيقي: 3854) و ھو يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 442