الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الصيام
کتاب: صیام کے احکام و مسائل
56. بَابٌ في لَيْلَةِ الْقَدْرِ
56. باب: لیلۃ القدر (شب قدر) کا بیان۔
حدیث نمبر: 1766
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ هِشَامٍ الدَّسْتُوَائِيِّ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: اعْتَكَفْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعَشْرَ الْأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، فَقَالَ:" إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ فَأُنْسِيتُهَا، فَالْتَمِسُوهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ فِي الْوَتْرِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے درمیانی عشرہ میں اعتکاف کیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے شب قدر خواب میں دکھائی گئی لیکن پھر مجھ سے بھلا دی گئی، لہٰذا تم اسے رمضان کے آخری عشرہ (دہے) کی طاق راتوں میں ڈھونڈھو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1766]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏: صحیح البخاری/الأذان 41 (669)، 135 (813)، 191 (836)، لیلةالقدر 2 (2016)، 3 (2018)، الاعتکاف 1 (2026)، 9 (2036)، 13 (2040)، صحیح مسلم/الصوم 40 (1167)، سنن ابی داود/الصلاة 157 (894)، 166 (911)، سنن النسائی/السہو 98 (1357)، (تحفة الأشراف: 4419)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/ الاعتکاف 6 (9)، مسند احمد (3/7، 34، 60، 74، 94) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: شب قدر کے سلسلہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں اور رمضان کی آخری رات کے اقوال مروی ہیں، امام شافعی کہتے ہیں کہ میرے نزدیک اس کا مفہوم یہ ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر سائل کو اس کے سوال کے مطابق جواب دیتے تھے، آپ سے کہا جاتا: ہم اسے فلاں رات میں تلاش کریں؟ آپ فرماتے: ہاں، فلاں رات میں تلاش کرو، امام شافعی فرماتے ہیں: میرے نزدیک سب سے قوی روایت اکیسویں رات کی ہے، ابی بن کعب رضی اللہ عنہ قسم کھا کر کہتے تھے کہ یہ ستائیسویں رات ہے، ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ مخصوص رات دکھائی گئی تھی پھر وہ آپ سے بھلا دی گئی، اس میں مصلحت یہ تھی کہ لوگ اس رات کی تلاش میں زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم