الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الزكاة
کتاب: زکاۃ و صدقات کے احکام و مسائل
11. بَابُ: مَا يَأْخُذُ الْمُصَدِّقُ مِنَ الإِبِلِ
11. باب: محصل زکاۃ والے سے کس قسم کا اونٹ لے؟
حدیث نمبر: 1801
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُثْمَانَ الثَّقَفِيِّ ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ ، قَالَ:" جَاءَنَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ، وَقَرَأْتُ فِي عَهْدِهِ، لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ بِنَاقَةٍ عَظِيمَةٍ مُلَمْلَمَةٍ فَأَبَى أَنْ يَأْخُذَهَا، فَأَتَاهُ بِأُخْرَى دُونَهَا فَأَخَذَهَا، وَقَالَ: أَيُّ أَرْضٍ تُقِلُّنِي، وَأَيُّ سَمَاءٍ تُظِلُّنِي، إِذَا أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ أَخَذْتُ خِيَارَ إِبِلِ رَجُلٍ مُسْلِمٍ".
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عامل صدقہ (زکاۃ وصول کرنے والا) آیا تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑا، اور اس کے میثاق (عہد نامہ) میں پڑھا کہ الگ الگ مالوں کو یکجا نہ کیا جائے، اور نہ مشترک مال کو زکاۃ کے ڈر سے الگ الگ کیا جائے، ایک شخص ان کے پاس ایک بھاری اور موٹی سی اونٹنی لے کر آیا، عامل زکاۃ نے اس کو لینے سے انکار کر دیا، آخر وہ دوسری اونٹنی اس سے کم درجہ کی لایا، تو عامل نے اس کو لے لیا، اور کہا کہ کون سی زمین مجھے جگہ دے گی، اور کون سا آسمان مجھ پر سایہ کرے گا؟ جب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک مسلمان کا بہترین مال لے کے جاؤں گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1801]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الزکاة 4 (1579)، سنن النسائی/الزکاة 12 (2459)، (تحفة الأشراف: 15593)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/315)، سنن الدارمی/الزکاة 8 (1670) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یعنی زکاۃ زیادہ یا کم دینے کے ڈر سے زیادہ کا اندیشہ مالک کو ہو گا، اور کم کا خوف زکاۃ وصول کرنے والے کو ہو گا، یہ حکم زکاۃ دینے والے اور زکاۃ وصول کرنے والے دونوں کے لیے ہے۔ الگ الگ کو یکجا کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً تین آدمی ہیں ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہیں، الگ الگ کی صورت میں ہر ایک کو ایک ایک بکری دینی پڑے گی اس طرح مجموعی طور پر تین بکریاں دینی پڑتی ہیں مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو وہ سب بکریاں جمع کر لیتے ہیں اور تعداد ایک سو بیس بن جاتی ہے، اس طرح ان کو صرف ایک بکری دینی پڑتی ہے۔ اور اکٹھا بکریوں کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی اکٹھے ہیں اور دو سو ایک بکریاں ان کی ملکیت میں ہیں اس طرح تین بکریاں زکاۃ میں دینا لازم آتا ہے مگر جب زکاۃ وصول کرنے والا ان کے پاس پہنچتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں اس طرح ان میں سے ہر ایک کے ذمہ ایک ایک ہی بکری لازم آتی ہے، خلاصہ یہ کہ اس طرح کی حیلہ سازی کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ زکاۃ وصول کرنے والے کو منع کرنے کی صورت یہ ہے کہ دو آدمی ہیں جو نہ تو باہم شریک (ساجھی دار) ہیں اور نہ ہی ایک دوسرے کے ساتھ اپنا مال ملائے ہوئے ہیں ان دونوں میں سے ہر ایک کے پاس ایک سو بیس یا اس سے کم و زیادہ بکریاں ہیں تو اس صورت میں ہر ایک کو ایک بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا ان دونوں کی بکریاں از خود جمع کر دیتا ہے، اور ان کی مجموعی تعداد دو سو سے زائد ہو جاتی ہے، اس طرح وہ تین بکریاں وصول کر لیتا ہے اور جمع شدہ کو الگ الگ کرنے کی صورت یہ ہے کہ مثلاً ایک سو بیس بکریاں تین آدمیوں کی ملکیت میں ہیں اس صورت میں صرف ایک ہی بکری زکاۃ میں دینی پڑتی ہے، مگر زکاۃ وصول کرنے والا اسے تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کر دیتا ہے اور اس طرح تین بکریاں وصول کر لیتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (1580)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444

حدیث نمبر: 1802
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ إِسْرَائِيلَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَرْجِعُ الْمُصَدِّقُ إِلَّا عَنْ رِضًا".
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عامل زکاۃ لوگوں کو خوش رکھ کر ہی واپس جائے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزكاة/حدیث: 1802]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الزکاة 55 (989)، سنن الترمذی/الزکاة 20 (647، 648)، سنن النسائی/الزکاة 14 (2462)، (تحفة الأشراف: 3215)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الزکاة 5 (1589)، مسند احمد (4/362)، سنن الدارمی/الزکاة 32 (1712) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: سبحان اللہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایمان داری اور خوف الہی کو دیکھئے کہ ایک شخص نے خوشی سے اپنا عمدہ مال زکاۃ میں دیا تب بھی انہوں نے قبول نہ کیا، دو وجہ سے، ایک تو یہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عمدہ مال زکاۃ میں لینے سے منع کر دیا تھا، دوسرے اس وجہ سے کہ شاید دینے والے کے دل کو ناگوار ہو، گو وہ ظاہر میں خوشی سے دیتا ہے، اس ذرا سی حق تلفی اور ناراضی کو بھی اتنا بڑا گناہ سمجھا کہ یوں کہا: زمین مجھے کیسے اٹھائے گی اور آسمان میرے اوپر گر پڑے گا اگر میں ایسا کام کروں، جب اسلام میں ایسے متقی اور ایمان دار اللہ تعالی سے ڈرنے والے لوگ اللہ تعالیٰ نے پیدا کئے تھے تو اسلام کو اس قدر جلد ایسی ترقی ہوئی کہ اس کا پیغام دنیا کے چپہ چپہ میں پہنچ گیا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ جابر الجعفي ضعيف رافضي¤ و تابعه مجالد: ضعيف (11) عند الطبراني (2362) و روي مسلم (989) عن رسول اللّٰه ﷺ قال: ((أرضوا مصدقيكم)) وھو يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 444¤ -