ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1867]
وضاحت: ۱؎: یعنی ایک مسلمان کی جب کسی جگہ نسبت طے ہونے لگے اور دونوں طرف سے رغبت کا اظہار ہونے لگ جائے تو کسی اور کے لیے شادی کا پیغام دینا جائز نہیں کیونکہ اس سے دوسرے مسلمان کی حق تلفی ہوتی ہے، اور اگر ابھی دونوں طرف سے رغبت کا اظہار نہیں ہوا ہے تو پیغام دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص اپنے بھائی کے پیغام پر پیغام نہ دے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1868]
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”جب تمہاری عدت گزر جائے تو مجھے خبر دینا“، آخر انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی، تو انہیں معاویہ ابولجہم بن صخیر اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہم نے شادی کا پیغام دیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”رہے معاویہ تو وہ مفلس آدمی ہیں ان کے پاس مال نہیں ہے، اور رہے ابوجہم تو وہ عورتوں کو بہت مارتے پیٹتے ہیں، لیکن اسامہ بہتر ہیں“ یہ سن کر فاطمہ رضی اللہ عنہا نے ہاتھ سے اشارہ کیا: اور کہا: اسامہ اسامہ (یعنی اپنی بے رغبتی ظاہر کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ”اللہ اور اس کے رسول کی بات ماننا تمہارے لیے بہتر ہے“، فاطمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: آخر میں نے اسامہ سے شادی کر لی، تو دوسری عورتیں مجھ پر رشک کرنے لگیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1869]
وضاحت: ۱؎: اس روایت سے معلوم ہوا کہ جسے پیغام دیا گیا اگر اس کی طرف سے ابھی موافقت کا اظہار نہیں ہوا ہے تو دوسرے کے لیے پیغام دینا جائز ہے، اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ صلاح و مشورہ دینے میں کسی کا حقیقی اور واقعی عیب بیان کرنا جائز ہے تاکہ مشورہ لینے والا دھوکہ نہ کھائے، یہ غیبت میں داخل نہیں ہے۔