الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
13. بَابُ: نِكَاحِ الصِّغَارِ يُزَوِّجُهُنَّ الآبَاءُ
13. باب: باپ نابالغ بچیوں کا نکاح کر سکتا ہے۔
حدیث نمبر: 1876
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" تَزَوَّجَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، فَقَدِمْنَا الْمَدِينَةَ فَنَزَلْنَا فِي بَنِي الْحَارِثِ بْنِ الْخَزْرَجِ، فَوُعِكْتُ فَتَمَرَّقَ شَعَرِي حَتَّى وَفَى لَهُ جُمَيْمَةٌ، فَأَتَتْنِي أُمِّي أُمُّ رُومَانَ وَإِنِّي لَفِي أُرْجُوحَةٍ وَمَعِي صَوَاحِبَاتٌ لِي، فَصَرَخَتْ بِي، فَأَتَيْتُهَا وَمَا أَدْرِي مَا تُرِيدُ، فَأَخَذَتْ بِيَدِي، فَأَوْقَفَتْنِي عَلَى بَابِ الدَّارِ، وَإِنِّي لَأَنْهَجُ حَتَّى سَكَنَ بَعْضُ نَفَسِي، ثُمَّ أَخَذَتْ شَيْئًا مِنْ مَاءٍ فَمَسَحَتْ بِهِ عَلَى وَجْهِي وَرَأْسِي، ثُمَّ أَدْخَلَتْنِي الدَّارَ، فَإِذَا نِسْوَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فِي بَيْتٍ، فَقُلْنَ: عَلَى الْخَيْرِ، وَالْبَرَكَةِ، وَعَلَى خَيْرِ طَائِرٍ، فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِنَّ فَأَصْلَحْنَ مِنْ شَأْنِي، فَلَمْ يَرُعْنِي إِلَّا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ضُحًى فَأَسْلَمَتْنِي إِلَيْهِ، وَأَنَا يَوْمَئِذٍ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شادی کی تو اس وقت میری عمر چھ سال کی تھی، پھر ہم مدینہ آئے تو بنو حارث بن خزرج کے محلہ میں اترے، مجھے بخار آ گیا اور میرے بال جھڑ گئے، پھر بال بڑھ کر مونڈھوں تک پہنچ گئے، تو میری ماں ام رومان میرے پاس آئیں، میں ایک جھولے میں تھی، میرے ساتھ میری کئی سہیلیاں تھیں، ماں نے مجھے آواز دی، میں ان کے پاس گئی، مجھے معلوم نہیں تھا کہ وہ کیا چاہتی ہیں؟ آخر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر گھر کے دروازہ پر لا کھڑا کیا، اس وقت میرا سانس پھول رہا تھا، یہاں تک کہ میں کچھ پرسکون ہو گئی، پھر میری ماں نے تھوڑا سا پانی لے کر اس سے میرا منہ دھویا اور سر پونچھا، پھر مجھے گھر میں لے گئیں، وہاں ایک کمرہ میں انصار کی کچھ عورتیں تھیں، انہوں نے دعا دیتے ہوئے کہا: تم خیر و برکت اور بہتر نصیب کے ساتھ جیو، میری ماں نے مجھے ان عورتوں کے سپرد کر دیا، انہوں نے مجھے آراستہ کیا، میں کسی بات سے خوف زدہ نہیں ہوئی مگر اس وقت جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چاشت کے وقت اچانک تشریف لائے، اور ان عورتوں نے مجھے آپ کے حوالہ کر دیا، اس وقت میری عمر نو سال تھی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1876]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/النکاح 38 (5133)، 39 (5134)، 59 (5158)، (تحفة الأشراف: 17106)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/النکاح 10 (1422)، سنن ابی داود/النکاح 34 (2121)، سنن النسائی/النکاح 29 (3257)، مسند احمد (6/118)، سنن الدارمی/النکاح 56 (2307) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 1877
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ سِنَانٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ:" تَزَوَّجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَائِشَةَ وَهِيَ بِنْتُ سَبْعٍ، وَبَنَى بِهَا وَهِيَ بِنْتُ تِسْعٍ، وَتُوُفِّيَ عَنْهَا وَهِيَ بِنْتُ ثَمَانِي عَشْرَةَ سَنَةً".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کیا، اس وقت ان کی عمر سات برس تھی، اور ان کے ساتھ خلوت کی تو ان کی عمر نو سال تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت ان کی عمر اٹھارہ سال تھی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1877]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9620، ومصباح الزجاجة: 669)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/130) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو عبیدہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، لیکن حدیث دوسرے طریق سے صحیح ہے، نیزملاحظہ ہو: الإرواء: 6 /230)

وضاحت: ۱؎: ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے فضائل و مناقب بے شمار ہیں، اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام بیویوں میں خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے افضل ہیں، اور بعضوں نے خدیجہ الکبری سے بھی ان کو افضل کہا ہے، غرض وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص چہیتی تھیں اور آپ کی بیویوں میں صرف وہی کنواری تھیں، اور اس کم سنی میں آپ رضی اللہ عنہا کا یہ حال تھا کہ علم و فضل،قوت حافظہ اور عقل و دانش میں بڑی بوڑھی عورتوں سے سبقت لے گئی تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح