الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
35. بَابُ: لاَ تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَلاَ الْمَصَّتَانِ
35. باب: ایک بار یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔
حدیث نمبر: 1940
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ أَبِي الْخَلِيلِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ ، أَنَّ أُمَّ الْفَضْلِ حَدَّثَتْهُ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تُحَرِّمُ الرَّضْعَةُ وَلَا الرَّضْعَتَانِ أَوِ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ".
ام الفضل رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک یا دو بار دودھ پینے یا چوسنے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت نہیں ہوتی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1940]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الرضاع 5 (1451)، سنن النسائی/النکاح 51 (3310)، (تحفة الأشراف: 18051)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/339، 340)، سنن الدارمی/النکاح 49 (2298) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: جب بچہ ماں کی چھاتی کو منہ میں لے کر چوستا ہے پھر بغیر کسی عارضہ کے اپنی مرضی و خوشی سے چھاتی کو چھوڑ دیتا ہے تو اسے «رَضْعَۃٌ» کہتے ہیں، اور «مصّۃ»: «مصّ» سے ماخوذ ہے جس کے معنی چوسنے کے ہیں، «مصۃ» اور «رَضْعَۃٌ» دونوں کے معنی ایک ہی ہیں۔ رضاعت کا حکم کتنا دودھ پینے سے ثابت ہوتا ہے اس میں اختلاف ہے، جمہور کا قول ہے کہ یہ حکم تھوڑا دودھ پیا ہو یا زیادہ دونوں صورتوں میں ثابت ہو جاتا ہے، داود ظاہری اور ایک قول کے مطابق احمد، اسحاق راہویہ، ابوعبید وغیرہم نے اس حدیث کے مفہوم مخالف (یعنی دو بار پینے یا چوسنے سے حرمت نہیں ثابت ہوتی تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ تین بار ایسا کرنے سے حرمت ثابت ہو جائیگی) سے استدلال کرتے ہوئے کہا ہے کہ رضاعت کا حکم تین مرتبہ پینے سے ثابت ہوتا ہے دو دفعہ پینے سے نہیں، اور امام شافعی کہتے ہیں کہ پانچ مرتبہ پینے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوتی ہے ان کی دلیل ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ہے جو آگے آ رہی ہے، جمہور کی دلیل آیت کریمہ: «امهاتكم اللآتى ارضعنكم» ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 1941
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ خَالِدِ بْنِ خِدَاشٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا تُحَرِّمُ الْمَصَّةُ وَالْمَصَّتَانِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک یا دو بار دودھ چوسنے سے حرمت کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت نہیں ہوتی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1941]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الرضاع 5 (1450)، سنن ابی داود/النکاح 11 (2063)، سنن الترمذی/الرضاع 3 (1150)، سنن النسائی/النکاح 51 (3312)، (تحفة الأشراف: 16189)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/31، 96، 216، 247)، سنن الدارمی/النکاح 49 (2297) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم

حدیث نمبر: 1942
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَارِثِ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ بْنِ عَبْدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّهَا قَالَتْ:" كَانَ فِيمَا أَنْزَلَ اللَّهُ مِنَ الْقُرْآنِ، ثُمَّ سَقَطَ لَا يُحَرِّمُ إِلَّا عَشْرُ رَضَعَاتٍ، أَوْ خَمْسٌ مَعْلُومَاتٌ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ پہلے قرآن میں یہ آیت تھی، پھر وہ ساقط و منسوخ ہو گئی، وہ آیت یہ ہے «لا يحرم إلا عشر رضعات أو خمس معلومات» دس یا پانچ مقرر رضاعتوں کو واجب کرنے والی رضاعت ثابت ہوتی ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 1942]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 17911)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الرضاع 6 (1452)، ولفظہ أصح، سنن ابی داود/النکاح 11 (2062)، سنن الترمذی/الرضاع 3 (1150)، سنن النسائی/النکاح 51 (3309)، موطا امام مالک/الرضاع 3 (17)، مسند احمد (6/269)، سنن الدارمی/النکاح 49 (2299) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ قرآن مجید میں یہ حکم نازل کیا گیا تھا کہ دس بار دودھ پینا حتی کہ اس کے پینے کا یقین ہو جائے، نکاح کو حرام قرار دیتا ہے، پھر پانچ بار دودھ پینے کے حکم سے یہ حکم منسوخ کر دیا گیا، اور جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو خمس معلومات (یعنی پانچ بار دودھ پینے) والی آیت قرآن میں پڑھی جا رہی تھی، امام نووی کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ پانچ کی تعداد کا نسخ اتنی تاخیر سے ہوا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا واقعہ پیش آ گیا اور بعض لوگ پھر بھی ان پانچ کی تعداد کو قرآن سمجھ کر اس کی تلاوت کرتے رہے کیونکہ آپ کی وفات کے بالکل ساتھ ہی ان کا منسوخ ہونا نازل ہوا تھا۔ مزید فرمایا کہ نسخ کی تین قسمیں ہیں، ایک جس کا حکم اور تلاوت دونوں منسوخ ہو جیسے دس مرتبہ دودھ پینے والی آیت، دوسری جس کی تلاوت تو منسوخ ہو مگر اس کا حکم باقی ہو جیسے پانچ مرتبہ دودھ پینے کی آیت، اور آیت رجم، اور تیسری یہ کہ جس کا حکم تو منسوخ ہو مگر اس کی تلاوت باقی ہو جیسے آیت وصیت وغیرہ۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح