الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب النكاح
کتاب: نکاح کے احکام و مسائل
58. بَابُ: الرَّجُلِ يَشُكُّ فِي وَلَدِهِ
58. باب: آدمی کا اپنے لڑکے میں شک کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2002
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي فَزَارَةَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ غُلَامًا أَسْوَدَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَمَا أَلْوَانُهَا؟"، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ:" هَلْ فِيهَا مِنْ أَوْرَقَ"، قَالَ: إِنَّ فِيهَا لَوُرْقًا، قَالَ:" فَأَنَّى أَتَاهَا ذَلِكَ"، قَالَ: عَسَى عِرْقٌ نَزَعَهَا، قَالَ: وَهَذَا لَعَلَّ عِرْقًا نَزَعَهُ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ الصَّبَّاحِ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قبیلہ بنی فزارہ کا ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا بچہ جنا ہے! تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا بھی ہے؟ اس نے کہا: ہاں، ان میں خاکی رنگ کے بھی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں خاکی رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں بھی (تیرے لڑکے میں) کسی رگ نے یہ رنگ کھینچ لیا ہو گا ۱؎۔ یہ الفاظ محمد بن صباح کے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2002]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/اللعان 1 (1500)، سنن ابی داود/الطلاق 28 (2260)، سنن الترمذی/الولاء 4 (2129)، سنن النسائی/الطلاق 46 (3508)، (تحفة الأشراف: 13129)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الطلاق 26 (5305)، الحدود 41 (6847)، الاعتصام 12 (7314)، مسند احمد (2/234، 239، 409) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ اونٹوں کی قدیم نسل میں کوئی دوسرے رنگ کا ہو گا، پھر یہی رنگ کئی پشت کے بعد ان کی نئی نسل میں ظاہر ہوا، اب موجودہ اونٹ جو پرانی نسل کے ہیں وہ خالص سرخ تھے، چت کبرے نہ تھے، پس اسی طرح ہو سکتا ہے کہ انسان کی اولاد میں بھی ماں باپ کے خلاف دوسرا رنگ ظاہر ہو، اور اس کی وجہ یہ ہو کہ ماں باپ کے دادا پردادا میں کوئی کالا بھی ہو اور وہ رنگ اب ظاہر ہوا ہو، حاصل یہ ہے کہ بچے کے گورے یا کالے رنگ یا نقشے کے اختلاف کی وجہ سے یہ شبہ نہ کرنا چاہئے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: بخاري ومسلم

حدیث نمبر: 2003
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عُبَادَةُ بْنُ كُلَيْبٍ اللَّيْثِيُّ أَبُو غَسَّانَ ، عَنْ جُوَيْرِيَةَ بْنِ أَسْمَاءَ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ ابْنِ عُمَر ، أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الْبَادِيَةِ أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ امْرَأَتِي وَلَدَتْ عَلَى فِرَاشِي غُلَامًا أَسْوَدَ، وَإِنَّا أَهْلُ بَيْتٍ لَمْ يَكُنْ فِينَا أَسْوَدُ قَطُّ، قَالَ:" هَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ؟"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَمَا أَلْوَانُهَا"، قَالَ: حُمْرٌ، قَالَ:" هَلْ فِيهَا أَسْوَدُ"، قَالَ: لَا، قَالَ:" فِيهَا أَوْرَقُ"، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:" فَأَنَّى كَانَ ذَلِكَ"، قَالَ:" عَسَى أَنْ يَكُونَ نَزَعَهُ عِرْقٌ"، قَالَ:" فَلَعَلَّ ابْنَكَ هَذَا نَزَعَهُ عِرْقٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک بدوی (دیہاتی) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! میری بیوی نے ایک کالا کلوٹا لڑکا جنا ہے، اور ہم ایک ایسے گھرانے کے ہیں جس میں کبھی کوئی کالا نہیں ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اونٹ ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ان کے رنگ کیا ہیں؟ اس نے کہا: سرخ ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان میں کوئی سیاہ بھی ہے؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا ان میں کوئی خاکی رنگ کا ہے؟ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ رنگ کہاں سے آیا؟ اس نے کہا: ہو سکتا ہے کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر شاید تمہارے اس بچے کا بھی یہی حال ہو کہ اسے کسی رگ نے کھینچ لیا ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب النكاح/حدیث: 2003]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7643، ومصباح الزجاجة: 117) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن