الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب التجارات
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
8. بَابُ: الأَجْرِ عَلَى تَعْلِيمِ الْقُرْآنِ
8. باب: قرآن کریم کی تعلیم پر اجرت لینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2157
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مُغِيرَةُ بْنُ زِيَادٍ الْمَوْصِلِيُّ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ ثَعْلَبَةَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ ، قَالَ: عَلَّمْتُ نَاسًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ الْقُرْآنَ وَالْكِتَابَةَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ رَجُلٌ مِنْهُمْ قَوْسًا، فَقُلْتُ: لَيْسَتْ بِمَالٍ وَأَرْمِي عَنْهَا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَسَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْهَا؟، فَقَالَ:" إِنْ سَرَّكَ، أَنْ تُطَوَّقَ بِهَا طَوْقًا مِنْ نَارٍ فَاقْبَلْهَا".
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اہل صفہ میں سے کئی لوگوں کو قرآن پڑھنا اور لکھنا سکھایا، تو ان میں سے ایک شخص نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اپنے جی میں کہا: یہ تو مال نہیں ہے، یہ اللہ کے راستے میں تیر اندازی کے لیے میرے کام آئے گا، پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم کو یہ اچھا لگے کہ اس کمان کے بدلے تم کو آگ کا ایک طوق پہنایا جائے تو اس کو قبول کر لو ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2157]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 37 (3416)، (تحفة الأشراف: 5068)، وقدأخرجہ: مسند احمد (5/315) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں اسود بن ثعلبہ مجہول راوی ہیں، لیکن دوسرے طریق سے یہ صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 256)

وضاحت: ۱؎: اہل صفہ وہ صحابہ جو مسجد نبوی کے سائبان میں رہا کرتے تھے۔ اس حدیث سے حنفیہ نے استدلال کرتے ہوئے تعلیم قرآن پر اجرت لینے کو ناجائز کہا ہے، تلاوت پر اجرت لینا جائز ہے، تلاوت پر اجرت لینے کا جواز ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کی حدیث سے نکلتا ہے (جو اوپر گزری، ملاحظہ ہو حدیث ۲۱۵۶)، اور صحیح بخاری میں ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ لوگوں نے ابوسعید سے کہا: آپ نے اللہ کی کتاب پر اجرت لی، اس پر انہوں نے فرمایا کہ سب سے زیادہ جس کے اجرت لینے کا حق ہے، وہ اللہ کی کتاب ہے، اور احمد، ابوداود اور نسائی میں ہے کہ خارجہ کے چچا نے جب سورہ فاتحہ سے دیوانے پر جھاڑ پھونک کی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اس کی اجرت لے لو، قسم میری عمر کی! لوگ تو جھاڑ پھونک سے جھوٹ پیدا کرتے ہیں تو نے سچ جھاڑ پھونک کر کے کھایا۔ اور تعلیم پر اجرت جائز نہ ہونے کی دلیل عبادہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے، دوسرے ابی رضی اللہ عنہ کی حدیث جو آگے آ رہی ہے، تیسرے مسند احمد میں عبدالرحمن بن شبل رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً آیا ہے کہ قرآن پڑھو، اس میں غلو اور جفا مت کرو اور اس سے روٹی مت کھاؤ اور مال مت بڑھاؤ، بزار نے بھی اس کے کئی شاہد ذکر کئے ہیں۔ چوتھی مسند احمد و ترمذی میں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا: قرآن پڑھو اور اللہ تعالی سے قرآن کا بدلہ مانگو، اس لئے کہ تمہارے بعد ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو لوگوں سے قرآن کا عوض مانگیں گے، اس باب میں کئی حدیثیں ہیں۔ لیکن جن علماء نے تعلیم قرآن پر اجرت کے جواز کا فتوی دیا ہے وہ اس اعتبار سے کہ اس کے سیکھنے سکھانے میں معلم نے اپنا وقت لگایا، تو اس کے لئے اس نیک عمل پر اجرت کا لینا وقت کے مقابل جائز ہوا۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن

حدیث نمبر: 2158
حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ ثَوْرِ بْنِ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا خَالِدُ بْنُ مَعْدَانَ ، حَدَّثَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَلْمٍ ، عَنْ عَطِيَّةَ الْكَلَاعِيِّ ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، قَالَ: عَلَّمْتُ رَجُلًا الْقُرْآنَ، فَأَهْدَى إِلَيَّ قَوْسًا فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" إِنْ أَخَذْتَهَا أَخَذْتَ قَوْسًا مِنْ نَارٍ فَرَدَدْتُهَا".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ایک شخص کو قرآن پڑھنا سکھایا تو اس نے مجھے ایک کمان ہدیے میں دی، میں نے اس کا ذکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم نے یہ لی تو آگ کی ایک کمان لی، اس وجہ سے میں نے اس کو واپس کر دیا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2158]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 69، ومصباح الزجاجة: 758) (صحیح)» ‏‏‏‏ (سند میں عطیہ اور أبی بن کعب رضی اللہ عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور عبدالرحمن بن سلم مجہول راوی ہیں، سند میں اضطراب بھی ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث صحیح ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 1493)

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عطية بن قيس الكلاعي عن أبي بن كعب مرسل (جامع التحصيل ص 239)¤ و الحديث السابق (الأصل: 2157) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 456