الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب التجارات
کتاب: تجارت کے احکام و مسائل
64. بَابُ: مَا لِلرَّجُلِ مِنْ مَالِ وَلَدِهِ
64. باب: اولاد کے مال میں والدین کے حق کا بیان۔
حدیث نمبر: 2290
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي زَائِدَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ عَمَّتِهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے کھانوں میں سب سے پاکیزہ کھانا وہ ہے جو تمہارے ہاتھ کی کمائی کا ہو، اور تمہاری اولاد بھی تمہاری ایک قسم کی کمائی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2290]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/البیوع 79 (3528)، سنن الترمذی/الأحکام 22 (1358)، سنن النسائی/البیوع 1 (4454)، (تحفة الأشراف: 17992)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/31، 32، 127، 162، 193، 220)، سنن الدارمی/البیوع 6 (2579) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 2291
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا يُوسُفُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْمُنْكَدِرِ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، أَنَّ رَجُلًا، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ لِي مَالًا وَوَلَدًا، وَإِنَّ أَبِي يُرِيدُ أَنْ يَجْتَاحَ مَالِي، فَقَالَ:" أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! میرے پاس مال اور اولاد دونوں ہیں، اور میرے والد میرا مال ختم کرنا چاہتے ہیں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اور تمہارا مال دونوں تمہارے والد کے ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2291]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3093، ومصباح الزجاجة: 805) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح

حدیث نمبر: 2292
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، وَيَحْيَى بْنُ حَكِيمٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَنْبَأَنَا حَجَّاجٌ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّ أَبِي اجْتَاحَ مَالِي، فَقَالَ:" أَنْتَ وَمَالُكَ لِأَبِيكَ". (حديث موقوف) (حديث مرفوع) وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ أَطْيَبِ كَسْبِكُمْ فَكُلُوا مِنْ أَمْوَالِهِمْ".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میرے والد نے میری دولت ختم کر دی (اس کے بارے میں فرمائیں؟) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اور تمہاری دولت دونوں تمہارے والد کے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے لہٰذا تم ان کے مال میں سے کھاؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2292]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8675)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/البیوع 79 (3530)، مسند احمد (2/179) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ باپ اپنے بیٹے کے مال میں ضرورت کے مطابق تصرف کر سکتا ہے اور اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے بھی لیں تو بھی بیٹے کو چاہئے کہ وہ ماں باپ سے مقابلہ نہ کرے، نہ ان سے سخت کلامی کرے اور اس وقت کو یاد کرے جب ماں باپ نے اسے محبت سے پالا پوسا تھا، پیشاب و پاخانہ دھویا، پھر کھلایا، پلایا، پڑھایا اور سکھایا، یہ سب احسانات ایسے ہیں کہ اگر ماں باپ کے کام میں بیٹے کا چمڑہ بھی آئے تو ان کا احسان نہ ادا ہو سکے اور یہ سمجھ لے کہ ماں باپ ہی کی رضامندی پر ان کی نجات منحصر ہے، اگر ماں باپ ناراض ہوئے تو دنیا و آخرت دونوں تباہ ہو گی، تجربہ سے معلوم ہوا کہ جن لڑکوں نے ماں باپ کو راضی رکھا ان کو بڑی برکت حاصل ہوئی اور انہوں نے چین سے زندگی بسر کی اور جنہوں نے ماں باپ کے ساتھ بدسلوکی کی وہ ہمیشہ دنیا میں جلتے اور کڑھتے ہی رہے، اگر ماں باپ بیٹے کا مال لے لیں تو کمال خوشی کرنا چاہئے کہ ہماری یہ قسمت کہاں تھی کہ ہمارا روپیہ ماں باپ کے کام آئے یا روپیہ اپنے موقع پر صرف ہوا، اور ماں باپ سے یوں کہنا چاہئے کہ روپیہ تو کیا میرا بدن اور میری جان بھی آپ ہی کی ہے، آپ اگر چاہیں تو مجھ کو بھی بازار میں بیچ لیں،میں آپ کا غلام ہوں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح