الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الأحكام
کتاب: قضا کے احکام و مسائل
29. بَابُ: الإِشْهَادِ عَلَى الدُّيُونِ
29. باب: قرض پر گواہ بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2365
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ ، وَجَمِيلُ بْنُ الْحَسَنِ الْعَتَكِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَرْوَانَ الْعِجْلِيُّ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ:" تَلَا هَذِهِ الْآيَةَ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَدَايَنْتُمْ بِدَيْنٍ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى حَتَّى بَلَغَ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُمْ بَعْضًا سورة البقرة آية 282 ـ 283 فَقَالَ: هَذِهِ نَسَخَتْ مَا قَبْلَهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ انہوں نے آیت کریمہ: «يا أيها الذين آمنوا إذا تداينتم بدين إلى أجل مسمى» کی تلاوت کی، یہاں تک کہ «فإن أمن بعضكم بعضا» یعنی اے ایمان والو! جب تم آپس میں ایک دوسرے سے میعاد مقرر پر قرض کا معاملہ کرو تو اسے لکھ لیا کرو، اور لکھنے والے کو چاہیئے کہ تمہارا آپس کا معاملہ عدل سے لکھے، کاتب کو چاہیئے کہ لکھنے سے انکار نہ کرے جیسے اللہ تعالیٰ نے اسے سکھایا ہے، پس اسے بھی لکھ دینا چاہیئے اور جس کے ذمہ حق ہو وہ لکھوائے اور اپنے اللہ سے ڈرے جو اس کا رب ہے، اور حق میں سے کچھ گھٹائے نہیں، ہاں جس شخص کے ذمہ حق ہے وہ اگر نادان ہو یا کمزور ہو یا لکھوانے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اس کا ولی عدل کے ساتھ لکھوا دے، اور اپنے میں سے دو مرد گواہ رکھ لو، اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں جنہیں تم گواہوں میں سے پسند کر لو، تاکہ ایک کی بھول چوک کو دوسری یاد دلا دے، اور گواہوں کو چاہیئے کہ وہ جب بلائے جائیں تو انکار نہ کریں اور قرض کو جس کی مدت مقرر ہے خواہ چھوٹا ہو یا بڑا ہو لکھنے میں کاہلی نہ کرو، اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہ بات بہت انصاف والی ہے اور گواہی کو بھی درست رکھنے والی اور شک و شبہ سے بھی زیادہ بچانے والی ہے، ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ معاملہ نقد تجارت کی شکل میں ہو جو آپس میں تم لین دین کر رہے ہو تو تم پر اس کے نہ لکھنے میں کوئی گناہ نہیں، خرید و فروخت کے وقت بھی گواہ مقرر کر لیا کرو، اور (یاد رکھو کہ) نہ تو لکھنے والے کو نقصان پہنچایا جائے نہ گواہ کو اور اگر تم یہ کرو گے تو یہ تمہاری کھلی نافرمانی ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرو، اللہ تمہیں تعلیم دے رہا ہے اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ اور اگر تم سفر میں ہو اور لکھنے والا نہ پاؤ تو رہن قبضہ میں رکھ لیا کرو، ہاں اگر آپس میں ایک دوسرے سے مطمئن ہو تو جیسے امانت دی گئی ہے وہ اسے ادا کر دے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے جو اس کا رب ہے، اور گواہی کو نہ چھپاؤ اور جو اسے چھپا لے وہ گنہگار دل والا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اسے اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے (سورۃ البقرہ: ۲۸۲، ۲۸۳) تک پہنچے تو فرمایا: اس آیت نے اس پہلی والی آیت کو منسوخ کر دیا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأحكام/حدیث: 2365]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4364، ومصباح الزجاجة: 829) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اور بعض علماء نے کہا کہ سابقہ آیت منسوخ نہیں ہے اس لئے کہ وہ استحبابی حکم تھا، واجب نہ تھا اور مستحب یہی ہے کہ جب قرض لیا جائے تو اس کو لکھیں اور گواہ بنا لیں کیونکہ زندگی کا اعتبار نہیں ہے ایسا نہ ہو کہ دائن (قرض خواہ) یا مدیون (مقروض) مر جائے اور ان کے وارثوں میں جھگڑا ہو یا مدیون کے ذمہ قرض رہ جائے اس کے وارث ادا نہ کریں تو عاقبت کا مواخذہ رہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن