ابوشریح خزاعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس شخص کا خون کر دیا جائے، یا اس کو زخمی کر دیا جائے، اسے (یا اس کے وارث کو) تین باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، اگر وہ چوتھی بات کرنا چاہے تو اس کا ہاتھ پکڑ لو، تین باتیں یہ ہیں: یا تو قاتل کو قصاص میں قتل کرے، یا معاف کر دے، یا خون بہا (دیت) لے لے، پھر ان تین باتوں میں سے کسی ایک کو کرنے کے بعد اگر بدلہ لینے کی بات کرے، تو اس کے لیے جہنم کی آگ ہے، وہ اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2623]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الدیات 3 (4496)، (تحفة الأشراف: 12059)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/31)، سنن الدارمی/الدیات 1 (2396) (ضعیف)» (اس سند میں ابن أبی العوجاء ضعیف ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سنن أبي داود (4496)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 473
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس کا کوئی شخص قتل کر دیا جائے تو اسے دو باتوں میں سے ایک کا اختیار ہے، یا تو وہ قاتل کو قصاص میں قتل کر دے، یا فدیہ لے لے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2624]
وضاحت: ۱؎: ایک تیسری بات یہ ہے کہ معاف کر دے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ نبی اسرائیل میں قصاص تھا لیکن دیت نہ تھی، تو اللہ تعالی نے یہ آیت اتاری: «كتب عليكم القصاص في القتلى»(سورة البقرة: 178)”مسلمانوں قتل میں تمہارے اوپر قصاص فرض کیا گیا ہے“ اور قصاص کے بارے میں فرمایا: «ولكم في القصاص حياة»(سورة البقرة: 179)”تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے“ غرض ان آیات و احادیث سے قصاص ثابت ہے اور اس پر علماء کا اجماع ہے۔