ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے اس شخص کے لیے جو اس کی راہ میں نکلے، اور اسے اس کی راہ میں صرف جہاد اور اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اس کے رسولوں کی تصدیق ہی نے نکالا ہو، (تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) میں اس کے لیے ضمانت لیتا ہوں کہ اسے جنت میں داخل کروں، یا اجر و ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اس منزل تک لوٹا دوں جہاں سے وہ گیا تھا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر مجھے مسلمانوں کے مشقت میں پڑ جانے کا ڈر نہ ہوتا تو میں کسی بھی سریہ (لشکر) کا جو اللہ کے راستے میں نکلتا ہے ساتھ نہ چھوڑتا، لیکن میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ سب کی سواری کا انتظام کر سکوں، نہ لوگوں کے پاس اتنی فراخی ہے کہ وہ ہر جہاد میں میرے ساتھ رہیں، اور نہ ہی انہیں یہ پسند ہے کہ میں چلا جاؤں، اور وہ نہ جا سکیں، پیچھے رہ جائیں، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، میں چاہتا ہوں کہ اللہ کی راہ میں جہاد کروں، اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں، اور قتل کر دیا جاؤں، پھر جہاد کروں، اور قتل کر دیا جاؤں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2753]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے راستے میں جہاد کرنے والے شخص کا اللہ تعالیٰ ضامن ہے، یا تو اسے اپنی رحمت و مغفرت میں ڈھانپ لے، یا ثواب اور مال غنیمت کے ساتھ اسے (گھر) واپس کرے، اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والے کی مثال نہ تھکنے والے صائم تہجد گزار کی ہے یہاں تک کہ وہ مجاہد گھر لوٹ آئے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2754]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4224، ومصباح الزجاجة: 973) (صحیح)» (سند میں عطیہ العوفی ضعیف ہے، لیکن اصل حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے متفق علیہ وارد ہے، ملاحظہ ہو: صحیح الترغیب: 1304 و 1320)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عطية العوفي ضعيف¤ و حديث مسلم (1878) و الترمذي (1620) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 478