انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر کیا تو انہوں نے کہا: آپ سب سے زیادہ خوبصورت، سخی اور بہادر تھے، ایک رات مدینہ والے گھبرا اٹھے، اور سب لوگ آواز کی جانب نکل پڑے تو راستے ہی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہو گئی، آپ ان سے پہلے اکیلے ہی آواز کی طرف چل پڑے تھے ۱؎، اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کے ننگی پیٹھ اور بغیر زین والے گھوڑے پر سوار تھے، اور اپنی گردن میں تلوار ٹکائے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”لوگو! ڈر کی کوئی بات نہیں ہے“، یہ کہہ کر آپ لوگوں کو واپس لوٹا رہے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑے کے متعلق فرمایا: ”ہم نے اسے سمندر پایا، یا واقعی یہ تو سمندر ہے“۔ حماد کہتے ہیں: مجھ سے ثابت نے یا کسی اور نے بیان کیا کہ وہ گھوڑا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کا تھا، جو سست رفتار تھا لیکن اس دن کے بعد سے وہ کبھی کسی گھوڑے سے پیچھے نہیں رہا ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2772]
وضاحت: ۱؎: یعنی جب امام یا حاکم جہاد کے لئے نکلنے کا اعلان عام کر دے تو ہر ایک مسلمان جس کو کوئی عذر نہ ہو، کا جہادکے لیے نکلنا واجب ہے۔ ۲؎: یہ برکت تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے جو نکلا حق تعالیٰ ویسا ہی کر دیا ایک سست رفتار اور خراب گھوڑا دم بھر میں عمدہ گھوڑوں سے زیادہ تیز اور چالاک ہو گیا۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں جہاد کے لیے نکلنے کا حکم دیا جائے تو فوراً نکل کھڑے ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2773]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی راہ کا غبار، اور جہنم کا دھواں، دونوں کسی مسلمان کے پیٹ میں اکٹھا نہ ہوں گے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2774]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص ایک شام بھی اللہ کی راہ میں چلا، تو جتنا غبار اس پر پڑا قیامت کے دن اس کے لیے اتنی ہی مشک ہو گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2775]