الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
4. بَابُ: الْحَجِّ عَلَى الرَّحْلِ
4. باب: سواری پر حج کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2890
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الرَّبِيعِ بْنِ صَبِيحٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: حَجَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى رَحْلٍ رَثٍّ، وَقَطِيفَةٍ تُسَاوِي أَرْبَعَةَ دَرَاهِمَ أَوْ لَا تُسَاوِي، ثُمَّ قَالَ:" اللَّهُمَّ حَجَّةٌ لَا رِيَاءَ فِيهَا، وَلَا سُمْعَةَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پرانے کجاوے پر سوار ہو کر ایک ایسی چادر میں حج کیا جس کی قیمت چار درہم کے برابر رہی ہو گی، یا اتنی بھی نہیں، پھر فرمایا: اے اللہ! یہ ایسا حج ہے جس میں نہ ریا کاری ہے اور نہ شہرت ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2890]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1672، ومصباح الزجاجة: 1019)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 3 (1517)، عن ثمامة بن عبد اللہ بن أنس قال: حج أنس علی رحل ولم یکن شحیحاً وحدث أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج علی رحل وکانت زاعلتہ (صحیح)» ‏‏‏‏ (الربیع بن صبیح و یزید بن ابان دونوں ضعیف ہیں، لیکن حدیث متابعت اور شواہد کی بناء پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2617، و مختصر الشمائل: 288، فتح الباری: 3؍ 387)

وضاحت: ۱؎: یعنی خالص تیری رضا مندی اور ثواب کے لیے حج کرتا ہوں، نہ نمائش اور فخر و مباہات کے لیے، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حج میں زیادہ زیب و زینت کرنا اور زیادہ عمدہ سواری یا عمدہ لباس رکھنا خلاف سنت ہے، حج میں بندہ اپنے مالک کے حضور میں جاتا ہے تو جس قدر عاجزی کے ساتھ جائے پھٹے پرانے حال سے اتنا ہی بہتر ہے تاکہ مالک کی رحمت جوش میں آئے، اور یہی وجہ ہے کہ حج میں سلے ہوئے کپڑے پہننے سے اور خوشبو لگانے سے منع کیا گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ يزيد بن أبان الرقاشي ضعيف¤ وله شاھد ضعيف عند ابن خزيمة (2836)¤ وللحديث شواھد ضعيفة¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482

حدیث نمبر: 2891
حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ دَاوُدَ بْنِ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي الْعَالِيَةِ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ مَكَّةَ وَالْمَدِينَةِ فَمَرَرْنَا بِوَادٍ، فَقَالَ:" أَيُّ وَادٍ هَذَا؟"، قَالُوا: وَادِي الْأَزْرَقِ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلام فَذَكَرَ مِنْ طُولِ شَعَرِهِ شَيْئًا لَا يَحْفَظُهُ دَاوُدُ وَاضِعًا إِصْبَعَيْهِ فِي أُذُنَيْهِ، لَهُ جُؤَارٌ إِلَى اللَّهِ بِالتَّلْبِيَةِ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي"، قَالَ: ثُمَّ سِرْنَا حَتَّى أَتَيْنَا عَلَى ثَنِيَّةٍ، فَقَالَ:" أَيُّ ثَنِيَّةٍ هَذِهِ"؟، قَالُوا: ثَنِيَّةُ هَرْشَى أَوْ لَفْتٍ، قَالَ:" كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى يُونُسَ عَلَى نَاقَةٍ حَمْرَاءَ عَلَيْهِ جُبَّةُ صُوفٍ، وَخِطَامُ نَاقَتِهِ خُلْبَةٌ مَارًّا بِهَذَا الْوَادِي مُلَبِّيًا".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ اور مدینہ کے درمیان تھے، ہمارا گزر ایک وادی سے ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: وادی ازرق ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا میں موسیٰ علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موسیٰ علیہ السلام کے بالوں کی لمبائی کا تذکرہ کیا (جو راوی داود کو یاد نہیں رہا) اپنی دو انگلیاں اپنے دونوں کانوں میں ڈالے ہوئے بلند آواز سے، لبیک کہتے ہوئے، اللہ سے فریاد کرتے ہوئے اس وادی سے گزرے۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم چلے یہاں تک کہ ہم ایک وادی میں پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون سی وادی ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: «هرشى أو لفت» کی وادی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: گویا میں یونس علیہ السلام کو دیکھ رہا ہوں جو بالوں کا جبہ پہنے ہوئے، سرخ اونٹنی پر سوار ہیں، ان کی اونٹنی کی نکیل کھجور کے پتوں کی رسی کی ہے، اور وہ اس وادی سے لبیک کہتے ہوئے گزر رہے ہیں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2891]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 74 (166)، (تحفة الأشراف: 5424)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الحج 30 (1555) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: «هرشى أو لفت» دونوں ٹیلوں کے نام ہیں۔
۲؎: احتمال ہے کہ عالم ارواح میں موسیٰ اور یونس علیہما السلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس وقت اسی طرح سے گزرے ہوں، یا یہ واقعہ ان کے زمانہ کا ہے، اللہ تبارک وتعالی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پھر دکھلا دیا، یا یہ تشبیہ ہے کمال علم اور یقین کی جیسے اس بات کو دیکھ رہے ہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: صحيح مسلم