عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑا ہوا، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! کون سی چیز حج کو واجب کر دیتی ہے،؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا: ”زاد سفر اور سواری (کا انتظام)“ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! حاجی کیسا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پراگندہ سر اور خوشبو سے عاری“ ایک دوسرا شخص اٹھا، اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! حج کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” «عج» اور «ثج»“۔ وکیع کہتے ہیں کہ «عج» کا مطلب ہے لبیک پکارنا، اور «ثج» کا مطلب ہے خون بہانا یعنی قربانی کرنا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2896]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الحج 4 (813)، (تحفة الأشراف: 7440) (ضعیف جدا)» (ابراہیم بن یزید مکی متروک الحدیث راوی ہے، لیکن «العج و الثج» کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے، جو 2924 نمبر پر آئے گا، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 988)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا لكن جملة العج والثج ثبتت في حديث آخر
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (813،2998)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے فرمان: «من استطاع إليه سبيلا» کا مطلب زاد سفر اور سواری ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2897]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6152، 6163، ومصباح الزجاجة: 1022) (ضعیف جدا) (سوید بن سعید متکلم فیہ اور عمر بن عطاء ضعیف راوی ہیں، نیز ملاحظہ ہو: الإروا ء: 988)»
وضاحت: ۱؎: یعنی قرآن میں جو آیا ہے کہ جو حج کے راہ کی طاقت رکھے اس سے مراد یہ ہے کہ کھانا اور سواری کا خرچ اس کے پاس ہو جائے تو حج فرض ہو گیا۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عمر بن عطاء بن وراز: ضعيف¤ هشام بن سليمان: مقبول (تقريب: 7296) أي مجهول الحال و سويدبن سعيد: ضعيف¤ وللحديث طريق موقوف عند البيهقي (331/4) وسنده ضعيف¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 482