عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو «لبیک عن شبرمہ»”حاضر ہوں شبرمہ کی طرف سے“ کہتے ہوئے سنا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”شبرمہ کون ہے“؟ اس نے بتایا: وہ میرا رشتہ دار ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”کیا تم نے کبھی حج کیا ہے“؟ اس نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس حج کو اپنی طرف سے کر لو، پھر (آئندہ) شبرمہ کی طرف سے کرنا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2903]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور بولا: کیا میں اپنے والد کی طرف سے حج کر لوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں، اپنے والد کی طرف سے حج کرو، اگر تم ان کی نیکی نہ بڑھا سکے تو ان کی برائی میں اضافہ مت کرو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2904]
وضاحت: ۱؎: یعنی باپ کے بڑے احسانات ہیں، آدمی کو چاہئے کہ اپنے والد کی طرف سے خیر خیرات اور اچھے کام کرے، جیسے صدقہ اور حج وغیرہ، اگر یہ نہ ہو سکے تو اتنا ضروری ہے کہ والد کے ساتھ برائی نہ کرے، وہ برائی یہ ہے دوسرے لوگوں سے لڑ کر والد کو گالیاں دلوائے یا برا کہلوائے یا ان کے والد کو برا کہہ کر، جیسے دوسری حدیث میں آیا ہے کہ بڑا کبیرہ گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کو گالی دے، لوگوں نے عرض کیا: اپنے والد کو کون گالی دے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس طرح سے کہ دوسرے کے والد کو گالی دے وہ اس کے والد کو گالی دے“۔
قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ سفيان الثوري عنعن¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483
مقام فرع کے ایک شخص ابوالغوث بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے حج کی ادائیگی کے بارے میں سوال کیا جو ان کے والد پر فرض تھا، اور وہ بغیر حج کیے مر گئے تھے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنے والد کی جانب سے حج کرو“، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا: ”اسی طرح کا معاملہ نذر مانے ہوئے صیام کا بھی ہے کہ ان کی قضاء اس کی طرف سے کی جائے گی“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2905]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12077، ومصباح الزجاجة: 1025) (ضعیف الإسناد)» (سند میں عثمان بن عطاء خراسانی ضعیف ہیں، بلکہ بعضوں کے نزدیک متروک، حدیث کے پہلے جملہ کے لئے آگے کی حدیث (2906) دیکھیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عطاء الخراساني لم يسمع من أبي الغوث رضي اللّٰه عنه كما في التقريب (8304)¤ والسند ضعفه البيهقي (335/3) والبوصيري¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 483