الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب المناسك
کتاب: حج و عمرہ کے احکام و مسائل
31. بَابُ: الطَّوَافِ بِالْحِجْرِ
31. باب: طواف کعبہ حطیم سمیت کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 2955
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ أَبِي الشَّعْثَاءِ ، عَنْ الْأَسْوَدِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الْحِجْرِ، فَقَالَ:" هُوَ مِنْ الْبَيْتِ"، قُلْتُ: مَا مَنَعَهُمْ أَنْ يُدْخِلُوهُ فِيهِ؟، فَقَالَ:" عَجَزَتْ بِهِمُ النَّفَقَةُ"، قُلْتُ: فَمَا شَأْنُ بَابِهِ مُرْتَفِعًا، لَا يُصْعَدُ إِلَيْهِ إِلَّا بِسُلَّمٍ؟، قَالَ:" ذَلِكَ فِعْلُ قَوْمِكِ لِيُدْخِلُوهُ مَنْ شَاءُوا، وَيَمْنَعُوهُ مَنْ شَاءُوا، وَلَوْلَا أَنَّ قَوْمَكِ حَدِيثُ عَهْدٍ بِكُفْرٍ، مَخَافَةَ أَنْ تَنْفِرَ قُلُوبُهُمْ، لَنَظَرْتُ هَلْ أُغَيِّرُهُ فَأُدْخِلَ فِيهِ مَا انْتَقَصَ مِنْهُ، وَجَعَلْتُ بَابَهُ بِالْأَرْضِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حطیم کے متعلق سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ کعبہ ہی کا ایک حصہ ہے میں نے پوچھا: پھر لوگوں (کفار) نے اس کو داخل کیوں نہیں کیا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس خرچ نہیں رہ گیا تھا میں نے کہا: اس کا دروازہ اتنا اونچا کیوں رکھا کہ بغیر سیڑھی کے اس پر چڑھا نہیں جاتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایسا تمہاری قوم کے لوگوں نے کیا تھا، تاکہ وہ جس کو چاہیں اندر جانے دیں اور جس کو چاہیں روک دیں، اور اگر تمہاری قوم کا زمانہ ابھی کفر سے قریب نہ گزرا ہوتا اور (اسلام سے) ان کے دلوں کے متنفر ہونے کا اندیشہ نہ ہوتا، تو میں سوچتا کہ میں اس کو بدل دوں، جو حصہ رہ گیا ہے اس کو اس میں داخل کر دوں، اور اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2955]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الحج 42 (1584)، أحادیث الأنبیاء 10 (3368)، تفسیر البقرة 10 (4484)، صحیح مسلم/الحج 69 (1333)، سنن النسائی/الحج 128 (2913)، (تحفة الأشراف: 16005)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الحج 33 (104)، سنن الدارمی/المناسک 44 (1911) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: حطیم کعبے کا ایک طرف چھوٹا ہوا حصہ ہے جو گول دائرے میں دیوار سے گھیر دیا گیا ہے یہ بھی بیت اللہ کا ایک حصہ ہے اس لیے طواف اس کے باہر سے کرنا چاہئے اگر کوئی طواف میں حطیم کو چھوڑ دے تو طواف درست نہ ہو گا۔
اس کا دروازہ زمین کے برابر کر دوں یعنی نیچا کر دوں کہ جس کا جی چاہے بغیر سیڑھی کے اندر چلا جائے دوسری روایت میں ہے کہ میں اس کے دو دروازے کرتا ایک پورب ایک پچھم، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعض کام مصلحت کے ہوتے ہیں، لیکن اس میں فتنہ کا خوف ہو تو اس کو ترک کرنا جائز ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء کے عہد میں کعبہ ایسا ہی رہا اور جیسا آپ چاہتے تھے ویسا بنانے کی فرصت نہیں ہوئی، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنے عہد میں کعبہ کو اسی طرح بنایا جیسا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنانا چاہا تھا، لیکن حجاج نے جب عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کو قتل کیا تو ضد سے پھر کعبہ کو توڑ کر ویسا ہی کر دیا جیسا جاہلیت کے زمانے میں تھا، خیر پھر اس کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے اپنی خلافت میں امام مالک سے سوال کیا کہ اگر آپ کہیں تو میں کعبہ کو پھر توڑ کر جیسا ابن زبیر رضی اللہ عنہما نے بنایا تھا، ویسا ہی کر دوں؟ تو انہوں نے کہا کہ اب کعبہ کو ہاتھ نہ لگائیں ورنہ اس کی وقعت لوگوں کے دلوں سے جاتی رہے گی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه