جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3254]
وضاحت: ۱؎: یعنی جب ایک آدمی پیٹ بھر کھاتا ہو، تو وہ دو آدمیوں کو کافی ہو جائے گا، اس پر گزارہ کر سکتے ہیں گو خوب آسودہ نہ ہوں، بعضوں نے کہا: حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جب کھانے کی قلت ہو، اور مسلمان بھوکے ہوں، تو ہر ایک آدمی کو مستحب ہے کہ اپنے کھانے میں ایک اور بھائی کو شریک کرے، اس صورت میں دونوں زندہ رہ سکتے ہیں اور کم کھانے میں فائدہ بھی ہے کہ آدمی چست چالاک رہتا ہے اور صحت عمدہ رہتی ہے، بعضوں نے کہا: مطلب یہ ہے کہ جب آدمی کے کھانے میں دو بھائی مسلمان شریک ہوں گے، اور اللہ تعالی کا نام لے کر کھائیں گے، تو وہ کھانا دونوں کو کفایت کر جائے گا، اور برکت ہوگی، واللہ اعلم۔
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے، دو کا کھانا تین اور چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا پانچ اور چھ کے لیے کافی ہوتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3255]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10535، ومصباح الزجاجة: 1118) (ضعیف جدا)» (سند میں عمرو بن دینار ہیں، جنہوں نے سالم سے منکر احادیث روایت کی ہے، ملاحظہ ہو: تراجع الألبانی: رقم: 561)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ عمرو بن دينار قھرمان آل الزبير ضعيف¤ و الحديث السابق (الأصل: 3255) يغني عنه¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 493