الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الأشربة
کتاب: مشروبات کے متعلق احکام و مسائل
18. بَابُ: الشُّرْبِ بِثَلاَثَةِ أَنْفَاسٍ
18. باب: پانی تین سانس میں پینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3416
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , حَدَّثَنَا عَزْرَةُ بْنُ ثَابِتٍ الْأَنْصَارِيُّ , عَنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَنَسٍ , أَنَّهُ كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا , وَزَعَمَ أَنَسٌ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَتَنَفَّسُ فِي الْإِنَاءِ ثَلَاثًا".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ برتن سے تین سانسوں میں پیتے اور کہتے تھے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تین سانسوں میں پیا کرتے تھے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3416]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الأشربة 66 (5631)، صحیح مسلم/الأشربة 16 (2028)، سنن الترمذی/الأشربة 13 (1884)، (تحفة الأشراف: 498)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأشربة 19 (3728)، مسند احمد (3/114، 119، 128، 185)، سنن الدارمی/الأشربة 20 (2166) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: تین سانس میں پانی پینا مستحب ہے، مگر ضروری ہے کہ جب سانس لے تو برتن کو اپنے منہ سے علیحدہ کر لے، اور دوسری حدیث میں جو برتن میں سانس لینے سے منع کیا ہے اس کا یہی مطلب ہے کہ برتن منہ سے لگا ہو، اور سانس لے یہ مکروہ ہے، اس لئے کہ پانی ناک میں چڑھ جانے کا ڈر ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

قال الشيخ زبير على زئي: متفق عليه

حدیث نمبر: 3417
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , قَالَا: حَدَّثَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُعَاوِيَةَ , حَدَّثَنَا رِشْدِينُ بْنُ كُرَيْبٍ , عَنْ أَبِيهِ , عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ , أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" شَرِبَ فَتَنَفَّسَ فِيهِ مَرَّتَيْنِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا، تو آپ نے دوبار سانس لی۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأشربة/حدیث: 3417]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأشربة 14 (1886)، (تحفة الأشراف: 6347)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/284، 285) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (رشدین بن کریب ضعیف راوی ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (1886)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 499