ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جن چیزوں سے تم علاج کرتے ہو اگر ان میں سے کسی میں خیر ہے تو پچھنے میں ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3476]
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الطب 3 (3857)، (تحفة الأشراف: 10511)، وقد أخرجہ، مسند احمد (2/242، 423) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پچھنا لگوانے کے کافی فوائد ہیں، بالخصوص جب بدن میں خون کی کثرت ہو تو یہ نہایت مفید ہوتا ہے، اور بعض امراض میں اس سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے فوراً آرام ہو جاتا ہے۔
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”معراج کی رات میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر بھی ہوا اس نے یہی کہا: محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ پچھنے کو لازم کر لیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3477]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 12 (2053)، (تحفة الأشراف: 6138)، وقد أخرجہ: (1/354) (صحیح)» (سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی پیدا ہو گئی تھی، لیکن شواہد کی وجہ سے حدیث صحیح ہے، ملاحظہ ہو: حدیث 3479، وحدیث ابن عمر فی مسند البزار و سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2263)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (2053)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پچھنا لگانے والا بہت بہتر شخص ہے کہ وہ خون نکال دیتا ہے، کمر کو ہلکا اور نگاہ کو تیز کرتا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3478]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الطب 12 (2053)، (تحفة الأشراف: 2053) (ضعیف)» (سند میں عباد بن منصور صدوق اور مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، نیز آخری عمر میں حافظہ میں تبدیلی آ گئی تھی، ترمذی نے حدیث کی تحسین کی ہے، اور حاکم نے تصحیح، اور ان کی موافقت ذہبی نے ایک جگہ (4؍212) کی ہے، اور دوسری جگہ نہیں (4؍410)، البانی صاحب نے اس کو ذہبی کا وہم بتایا ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2036)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ ترمذي (2053)¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس رات معراج ہوئی میرا گزر فرشتوں کی جس جماعت پر ہوا اس نے کہا: ”محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنی امت کو پچھنا لگانے کا حکم دیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3479]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 1448، ومصباح الزجاجة: 1211) (صحیح)» (سند میں جبارہ اور کثیر بن سلیم ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے، ملاحظہ ہو: حدیث: 3478)
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف¤ إسناده ضعيف¤ جبارة وكثير بن سليم مجروحان¤ انوار الصحيفه، صفحه نمبر 502
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پچھنا لگانے کی اجازت طلب کی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطیبہ کو حکم دیا کہ وہ انہیں پچھنا لگائے، جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ابوطیبہ یا تو ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے رضاعی بھائی تھے یا پھر نابالغ لڑکے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطب/حدیث: 3480]