ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ تعالیٰ تم میں سے کسی کی توبہ سے اس سے کہیں زیادہ خوش ہوتا ہے جتنا کہ تم اپنی گمشدہ چیز پانے سے خوش ہوتے ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4247]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 13935)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 99 (3538) (صحیح)»
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم گناہ کرو یہاں تک کہ تمہارے گناہ آسمان تک پہنچ جائیں، پھر تم توبہ کرو تو (اللہ تعالیٰ) ضرور تمہاری توبہ قبول کرے گا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4248]
وضاحت: ۱؎: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ اللہ تعالی کی رحمت اس قدر وسیع ہے کہ بندہ کے گناہ چاہے وہ جتنے زیادہ ہوں، ان کی مغفرت کے لئے کی جانے والی توبہ کو اللہ تعالی ضرور قبول کرے گا، بشرطیکہ یہ توبہ خلوص دل سے ہو، اس حدیث سے یہ قطعاً نہ سمجھا جائے کہ گناہ کثرت سے کئے جائیں اور پھر توبہ کر لی جائے، کیونکہ حدیث میں توبہ کی اہمیت بتائی گئی ہے، نہ کہ بکثرت گناہ کرنے کی۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ سے ایسے ہی خوش ہوتا ہے جیسے کسی آدمی کی سواری چٹیل میدان میں کھو جائے، وہ اس کو تلاش کرے یہاں تک کہ جب وہ تھک جائے تو کپڑے سے اپنا منہ ڈھانک کر لیٹ جائے، اسی حالت میں اچانک وہ اپنی سواری کے قدموں کی چاپ وہاں سے آتی سنے جہاں اسے کھویا تھا، وہ اپنے چہرے سے اپنا کپڑا اٹھائے تو دیکھے کہ اس کی سواری موجود ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4249]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4231، ومصباح الزجاجة: 1520)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/83)» (منکر) (سند میں سفیان بن وکیع متروک اور عطیہ العوفی ضعیف ہیں، ثقہ راویوں کی روایات اس کے برخلاف ہے)
قال الشيخ الألباني: منكر بهذا اللفظ
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ عطية : ضعيف مدلس (تقدم:576) ولأصل الحديث شواهد عند البخاري (2308) و مسلم (2744) وغيرهما ۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گناہ سے توبہ کرنے والا اس شخص جیسا ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4250]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 9610، ومصباح الزجاجة: 1521) (حسن)» (سند میں ابوعبیدہ کا سماع اپنے والد سے نہیں ہے، لیکن شواہد کی بناء پر حدیث حسن ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 615- 616)
قال الشيخ الألباني: حسن
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ أبو عبيدة بن عبدالله بن مسعود عن أبيه : منقطع ۔ (تقدم:615)
انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سارے بنی آدم (انسان) گناہ گار ہیں اور بہترین گناہ گار وہ ہیں جو توبہ کرنے والے ہیں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4251]
عبداللہ بن معقل مزنی کہتے ہیں کہ میں اپنے والد کے ساتھ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو میں نے ان کو کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ندامت (شرمندگی) توبہ ہے“، میرے والد نے ان سے پوچھا کہ آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ ندامت توبہ ہے؟ انہوں نے کہا: ”ہاں“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4252]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفةالأشراف: 9351، ومصباح الزجاجة: 1522)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/376، 422، 423، 433) (صحیح)»
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک اللہ (عزوجل) اپنے بندے کی توبہ قبول کرتا رہتا ہے جب تک اس کی جان حلق میں نہ آ جائے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4253]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6674، 8615، ومصباح الزجاجة: 1523)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الدعوات 99 (3537)، مسند احمد (2/132، 153) (حسن)» (سند میں ولید بن مسلم مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن دوسرے طرق سے یہ حسن ہے)
وضاحت: ۱؎: مزی کہتے ہیں کہ ابن ماجہ میں عبداللہ بن عمرو آیا ہے، جو وہم ہے، صحیح عبداللہ بن عمر بن الخطاب ہے)۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر بتایا کہ اس نے ایک عورت کا بوسہ لیا ہے، وہ اس کا کفارہ پوچھنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کچھ نہیں کہا تو اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرمائی: «وأقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين»”نماز قائم کرو دن کے دونوں حصوں (صبح و شام) میں اور رات کے ایک حصے میں، بیشک نیکیاں برائیوں کو دور کر دیتی ہیں، یہ ذکر کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت ہے“(سورۃ ہود: ۱۱۴)، اس شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا یہ (خاص) میرے لیے ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ میری امت میں سے ہر اس شخص کے لیے ہے جو اس پر عمل کرے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4254]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک آدمی نے اپنے اوپر بہت زیادتی کی تھی، (یعنی گناہوں کا ارتکاب کیا تھا) جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے جلا ڈالنا، پھر مجھے پیس کر سمندر کی ہوا میں اڑا دینا، اللہ کی قسم! اگر میرا رب میرے اوپر قادر ہو گا تو مجھے ایسا عذاب دے گا جو کسی کو نہ دیا ہو گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کے بیٹوں نے اس کے ساتھ ایسا ہی کیا، اللہ تعالیٰ نے زمین سے کہا کہ جو تو نے لیا ہے اسے حاضر کر، اتنے میں وہ کھڑا ہو گیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس سے کہا: تجھے اس کام پر کس نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے کہا: تیرے ڈر اور خوف نے اے رب! تو اللہ تعالیٰ نے اس کو اسی وجہ سے معاف کر دیا“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4255]
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک عورت اس بلی کی وجہ سے جہنم میں داخل ہوئی جس کو اس نے باندھ رکھا تھا، وہ نہ اس کو کھانا دیتی تھی، اور نہ چھوڑتی ہی تھی کہ وہ زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لے یہاں تک کہ وہ مر گئی“۔ زہری کہتے ہیں: (ان دونوں حدیثوں سے یہ معلوم ہوا کہ) کوئی آدمی نہ اپنے عمل پر بھروسہ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس ہی ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4256]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/السلام 40 (2243)، (تحفة الأشراف: 12280)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/317، 12287) (صحیح)»
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: میرے بندو! تم سب گناہ گار ہو سوائے اس کے جس کو میں بچائے رکھوں، تو تم مجھ سے مغفرت طلب کرو، میں تمہیں معاف کر دوں گا، اور تم میں سے جو جانتا ہے کہ میں مغفرت کی قدرت رکھتا ہوں اور وہ میری قدرت کی وجہ سے معافی چاہتا ہے تو میں اسے معاف کر دیتا ہوں، تم سب کے سب گمراہ ہو سوائے اس کے جسے میں ہدایت دوں، تم مجھ ہی سے ہدایت مانگو، میں تمہیں ہدایت دوں گا، تم سب کے سب محتاج ہو سوائے اس کے جس کو میں غنی (مالدار) کر دوں، تم مجھ ہی سے مانگو میں تمہیں روزی دوں گا، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہو جائیں، اور میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ پرہیزگار شخص کی طرح ہو جائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی اضافہ نہ ہو گا، اور اگر یہ سب مل کر میرے بندوں میں سے سب سے زیادہ بدبخت کی طرح ہو جائیں تو میری سلطنت میں ایک مچھر کے پر کے برابر بھی کمی نہ ہو گی، اور اگر تمہارے زندہ و مردہ، اول و آخر اور خشک و تر سب جمع ہو جائیں، اور ان میں سے ہر ایک مجھ سے اتنا مانگے جہاں تک اس کی آرزوئیں پہنچیں، تو میری سلطنت میں کوئی فرق واقع نہ ہو گا، مگر اس قدر جیسے تم میں سے کوئی سمندر کے کنارے پر سے گزرے اور اس میں ایک سوئی ڈبو کر نکال لے، یہ اس وجہ سے ہے کہ میں سخی ہوں، بزرگ ہوں، میرا دینا صرف کہہ دینا ہے، میں کسی چیز کا ارادہ کرتا ہوں تو کہتا ہوں ”ہو جا“ اور وہ ہو جاتی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4257]
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/صفة القیامة 48 (2495)، (تحفة الأشراف: 11964)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/البر والصلة 15 (2577)، مسند احمد (5/154، 177) (ضعیف)» (سند شہر بن حوشب کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن صحیح مسلم میں حدیث کے اکثر جملے ثابت ہیں)