الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:


سنن ابن ماجه
كتاب الزهد
کتاب: زہد و ورع اور تقوی کے فضائل و مسائل
33. بَابُ: ذِكْرِ الْبَعْثِ
33. باب: حشر کا بیان۔
حدیث نمبر: 4273
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ , عَنْ حَجَّاجٍ , عَنْ عَطِيَّةَ , عَنْ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ صَاحِبَيِ الصُّورِ بِأَيْدِيهِمَا أَوْ فِي أَيْدِيهِمَا قَرْنَانِ , يُلَاحِظَانِ النَّظَرَ مَتَى يُؤْمَرَانِ".
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک «صور» والے دونوں فرشتے اپنے ہاتھوں میں «صور» ۱؎ لیے برابر دیکھتے رہتے ہیں کہ کب پھونکنے کا حکم ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4273]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4193، ومصباح الزجاجة: 1529) (منکر)» ‏‏‏‏ (سند میں حجاج بن ارطاہ وعطیہ العوفی ضعیف ہیں، اور حجاج نے ثقات کی مخالفت کی ہے، اس لئے یہ لفظ منکر ہے، محفوظ حدیث «صاحب القرن» ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 1079)

وضاحت: ۱؎: «صور» کی جمع «اصوار» یعنی نرسنگا، اور بگل۔

قال الشيخ الألباني: منكر والمحفوظ بلفظ صاحب القرن

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ حجاج بن أرطاة وعطية العوفي : ضعيفان (تقدما:496 ، 576)

حدیث نمبر: 4274
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , قَالَ: قَالَ رَجُلٌ مِنْ الْيَهُودِ بِسُوقِ الْمَدِينَةِ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَى الْبَشَرِ , فَرَفَعَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ يَدَهُ فَلَطَمَهُ , قَالَ: تَقُولُ هَذَا وَفِينَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذُكِرَ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الأَرْضِ إِلا مَنْ شَاءَ اللَّهُ ثُمَّ نُفِخَ فِيهِ أُخْرَى فَإِذَا هُمْ قِيَامٌ يَنْظُرُونَ سورة الزمر آية 68 , فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ رَفَعَ رَأْسَهُ , فَإِذَا أَنَا بِمُوسَى آخِذٌ بِقَائِمَةٍ مِنْ قَوَائِمِ الْعَرْشِ , فَلَا أَدْرِي أَرَفَعَ رَأْسَهُ قَبْلِي , أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ , وَمَنْ قَالَ أَنَا خَيْرٌ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى , فَقَدْ كَذَبَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ کو تمام لوگوں سے برگزیدہ بنایا، یہ سن کر ایک انصاری نے اس کو ایک طمانچہ مارا، اور کہا: تم ایسا کہتے ہو جب کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب اس کا تذکرہ کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» اور صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان والے سب بیہوش ہو جائیں گے، سوائے اس کے جس کو اللہ چاہے، پھر دوسرا صور پھونکا جائے گا تب وہ سب کھڑے ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے (سورۃ الزمر: ۶۸)، میں سب سے پہلے اپنا سر اٹھاؤں گا، تو دیکھوں گا کہ موسیٰ (علیہ السلام) عرش کا ایک پایہ تھامے ہوئے ہیں، میں نہیں جانتا کہ انہوں نے مجھ سے پہلے سر اٹھایا، یا وہ ان لوگوں میں سے تھے جن کو اللہ تعالیٰ نے مستثنیٰ کر دیا ہے، اور جس نے یہ کہا: میں یونس بن متی سے بہتر ہوں تو اس نے غلط کہا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4274]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15076، ومصباح الزجاجة: 1531)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الفضائل 42 (2373) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: یونس علیہ السلام سے غلطی ہوئی تھی، لیکن اللہ تعالی نے انہیں معاف کر دیا تھا، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب یہ ہے کہ تمام انبیاء کی شان بڑی ہے اور نبوت اور رسالت کا مرتبہ سب کو حاصل ہے لہذا اپنی رائے سے ایک کو دوسرے پر فضیلت مت دو، بعضوں نے کہا کہ یہ حدیث پہلے کی ہے، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہوا کہ آپ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور انجیل مقدس میں مذکور ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نے آپ کے بارے میں فرمایا کہ اس جہاں کا سردار آتا ہے، یا حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ایک نبی کو دوسرے نبی پر اس طرح فضیلت مت دو کہ دوسرے نبی کی تحقیر یا توہین نکلے کیونکہ کسی نبی کی تحقیر یا توہین کفر ہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 4275
حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ , وَمُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ , قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ أَبِي حَازِمٍ , حَدَّثَنِي أَبِي , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ مِقْسَمٍ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ , يَقُولُ:" يَأْخُذُ الْجَبَّارُ سَمَاوَاتِهِ وَأَرَضِيهِ بِيَدِهِ , وَقَبَضَ يَدَهُ فَجَعَلَ يَقْبِضُهَا وَيَبْسُطُهَا , ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْجَبَّارُ , أَنَا الْمَلِكُ , أَيْنَ الْجَبَّارُونَ؟ أَيْنَ الْمُتَكَبِّرُونَ؟" , قَالَ: وَيَتَمَايَلُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ , حَتَّى نَظَرْتُ إِلَى الْمِنْبَرِ يَتَحَرَّكُ مِنْ أَسْفَلِ شَيْءٍ مِنْهُ , حَتَّى إِنِّي لَأَقُولُ , أَسَاقِطٌ هُوَ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر فرماتے سنا: جبار (اللہ) آسمانوں اور زمینوں کو اپنے ہاتھ میں لے گا، (آپ نے مٹھی بند کی پھر اس کو بند کرنے اور کھولنے لگے) پھر فرمائے گا: میں جبار ہوں، میں بادشاہ ہوں، کہاں ہیں دوسرے جبار؟ کہاں ہیں دوسرے متکبر؟ یہ کہہ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دائیں اور بائیں جھک رہے تھے، یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ منبر کچھ نیچے سے ہل رہا تھا، حتیٰ کہ میں کہنے لگا کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر گر نہ پڑے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4275]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفة القیامة نحوہ (2788)، (تحفة الأشراف: 7315)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/72، 87) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4276
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ , عَنْ حَاتِمِ بْنِ أَبِي صَغِيرَةَ , عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ , عَنْ الْقَاسِمِ , قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَيْفَ يُحْشَرُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ:" حُفَاةً عُرَاةً" , قُلْتُ: وَالنِّسَاءُ؟ قَالَ:" وَالنِّسَاءُ" , قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَمَا يُسْتَحْيَا , قَالَ:" يَا عَائِشَةُ , الْأَمْرُ أَشَدُّ مِنْ أَنْ يَنْظُرَ بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگ قیامت کے دن کیسے اٹھائے جائیں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ننگے پاؤں، ننگے بدن، میں نے کہا: عورتیں بھی اسی طرح؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عورتیں بھی، میں نے کہا: اللہ کے رسول! پھر شرم نہیں آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! معاملہ اتنا سخت ہو گا کہ (کوئی) ایک دوسرے کی طرف نہ دیکھے گا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4276]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الرقاق 45 (6527)، صحیح مسلم/الجنة 14 (2859)، سنن النسائی/الجنائز 118 (2086)، (تحفة الأشراف: 17461)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/53، 90) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: اپنی جان بچانے کی فکر ہو گی ایسے وقت میں بدنظری کیسی۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4277
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَلِيِّ بْنِ رِفَاعَةَ , عَنْ الْحَسَنِ , عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُعْرَضُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَلَاثَ عَرَضَاتٍ: فَأَمَّا عَرْضَتَانِ فَجِدَالٌ وَمَعَاذِيرُ , وَأَمَّا الثَّالِثَةُ , فَعِنْدَ ذَلِكَ تَطِيرُ الصُّحُفُ فِي الْأَيْدِي , فَآخِذٌ بِيَمِينِهِ وَآخِذٌ بِشِمَالِهِ".
ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کی تین پیشیاں ہوں گی، دوبار کی پیشی میں بحث و تکرار اور عذر و بہانے ہوں گے اور تیسری بار میں اعمال نامے ہاتھوں میں اڑ رہے ہوں گے، تو کوئی اس کو اپنے دائیں ہاتھ میں اور کوئی بائیں ہاتھ میں پکڑے ہو گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4277]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8986، ومصباح الزجاجة: 1532)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/414) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (حسن بصری کا سماع ابوموسیٰ سے ثابت نہیں ہے، اس لئے انقطاع کی وجہ سے سند ضعیف ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ الحسن عنعن (تقدم:243) وللحديث لون آخر عند الترمذي (2425)

حدیث نمبر: 4278
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ , وَأَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ , عَنْ ابْنِ عَوْنٍ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ سورة المطففين آية 6 , قَالَ:" يَقُومُ أَحَدُهُمْ فِي رَشْحِهِ إِلَى أَنْصَافِ أُذُنَيْهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «يوم يقوم الناس لرب العالمين» جس دن لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے (سورۃ المطففین: ۶) کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا: لوگ اس طرح کھڑے ہوں گے کہ نصف کان تک اپنے پسینے میں غرق ہوں گے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4278]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن 83 (4938)، الرقاق 47 (6531)، صحیح مسلم/الجنة وصفة نعیمہا 15 (2862)، سنن الترمذی/صفة القیامة 2 (2422)، التفسیر 74 (3336)، (تحفة الأشراف: 7743)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/13، 31، 33) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4279
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ , عَنْ دَاوُدَ , عَنْ الشَّعْبِيِّ , عَنْ مَسْرُوقٍ , عَنْ عَائِشَةَ , قَالَتْ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , عن قَوْلةِ: يَوْمَ تُبَدَّلُ الأَرْضُ غَيْرَ الأَرْضِ وَالسَّمَوَاتُ سورة إبراهيم آية 48، سورة إبراهيم آية 48 فَأَيْنَ تَكُونُ النَّاسُ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ:" عَلَى الصِّرَاطِ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے «يوم تبدل الأرض غير الأرض والسموات» جس دن زمین اور آسمان بدل دئیے جائیں گے (سورة إبراهيم: 48) سے متعلق پوچھا کہ لوگ اس وقت کہاں ہوں گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پل صراط پر۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4279]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/صفة القیامة 2 (2791)، سنن الترمذی/تفسیر القرآن 15 (3121)، (تحفة الأشراف: 17617)، وقد أخرجہ: مسند احمد6/35)، سنن الدارمی/الرقاق 88 (2851) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4280
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الْأَعْلَى , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاق , حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغِيرَةِ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ بْنِ الْعُتْوَارِيِّ أَحَدِ بَنِي لَيْثٍ , قَالَ: وَكَانَ فِي حَجْرِ أَبِي سَعِيدٍ , قَالَ: سَمِعْتُهُ يَعْنِي: أَبَا سَعِيدٍ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:" يُوضَعُ الصِّرَاطُ بَيْنَ ظَهْرَانَيْ جَهَنَّمَ , عَلَى حَسَكٍ كَحَسَكِ السَّعْدَانِ , ثُمَّ يَسْتَجِيزُ النَّاسُ , فَنَاجٍ مُسَلَّمٌ وَمَخْدُوجٌ بِهِ , ثُمَّ نَاجٍ وَمُحْتَبَسٌ بِهِ , وَمَنْكُوسٌ فِيهَا".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پل صراط جہنم کے دونوں کناروں پر رکھا جائے گا، اس پر سعدان کے کانٹوں کی طرح کانٹے ہوں گے، پھر لوگ اس پر سے گزرنا شروع کریں گے، تو بعض لوگ صحیح سلامت گزر جائیں گے، بعض کے کچھ اعضاء کٹ کر جہنم میں گر پڑیں گے، پھر نجات پائیں گے، بعض اسی پر اٹکے رہیں گے، اور بعض اوندھے منہ جہنم میں گریں گے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4280]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4068، ومصباح الزجاجة: 1530)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/الإیمان 81 (283)، مسند احمد (2/293، 3/11، 17) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 4281
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ , حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ , عَنْ الْأَعْمَشِ , عَنْ أَبِي سُفْيَانَ , عَنْ جَابِرٍ , عَنْ أُمِّ مُبَشِّرٍ , عَنْ حَفْصَةَ , قَالَتْ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنِّي لَأَرْجُو أَلَّا يَدْخُلَ النَّارَ أَحَدٌ إِنْ شَاءَ اللَّهُ تَعَالَى مِمَّنْ شَهِدَ بَدْرًا , وَالْحُدَيْبِيَةَ" , قَالَتْ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَلَيْسَ قَدْ قَالَ اللَّهُ: وَإِنْ مِنْكُمْ إِلا وَارِدُهَا كَانَ عَلَى رَبِّكَ حَتْمًا مَقْضِيًّا سورة مريم آية 71 , قَالَ:" أَلَمْ تَسْمَعِيهِ , يَقُولُ: ثُمَّ نُنَجِّي الَّذِينَ اتَّقَوْا وَنَذَرُ الظَّالِمِينَ فِيهَا جِثِيًّا سورة مريم آية 72".
ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے امید ہے جو لوگ بدر و حدیبیہ کی جنگوں میں شریک تھے، ان میں سے کوئی جہنم میں نہ جائے گا، «إ ن شاء اللہ» اگر اللہ نے چاہا، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد نہیں ہے: «وإن منكم إلا واردها كان على ربك حتما مقضيا» تم میں سے ہر ایک کو اس میں وارد ہونا ہے، یہ تیرے رب کا حتمی فیصلہ ہے (سورة مريم: 71)؟، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ قول نہیں سنا: «ثم ننجي الذين اتقوا ونذر الظالمين فيها جثيا» پھر ہم پرہیزگاروں کو نجات دیں گے اور ظالموں کو اسی میں اوندھے منہ چھوڑ دیں گے (سورة مريم: 72۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4281]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 15820، ومصباح الزجاجة: 1533)، وقد أخرجہ: مسند احمد6/285) (صحیح) (سلسلة الاحادیث الصحیحة، للالبانی: 2405)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح