الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح البخاري کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:


صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة
کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
53. بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: {لاَ يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا} وَكَمِ الْغِنَى:
53. باب: (سورۃ البقرہ میں) اللہ تعالیٰ کا ارشاد کہ ”جو لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتے“ اور کتنے مال سے آدمی مالدار کہلاتا ہے۔
حدیث نمبر: Q1476
وَقَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَلاَ يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ» . {لِلْفُقَرَاءِ الَّذِينَ أُحْصِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ} إِلَى قَوْلِهِ: {فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ}.
‏‏‏‏ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ وہ شخص جو بقدر کفایت نہیں پاتا (گویا اس کو غنی نہیں کہہ سکتے) اور (اللہ تعالیٰ نے اسی سورۃ میں فرمایا ہے کہ) صدقہ خیرات تو ان فقراء کے لیے ہے جو اللہ کے راستے میں گھر گئے ہیں۔ کسی ملک میں جا نہیں سکتے کہ وہ تجارت ہی کر لیں۔ ناواقف لوگ انہیں سوال نہ کرنے کی وجہ سے غنی سمجھتے ہیں۔ آخر آیت «فإن الله به عليم» تک (یعنی وہ حد کیا ہے جس سے سوال ناجائز ہو)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: Q1476]
حدیث نمبر: 1476
حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ زِيَادٍ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي تَرُدُّهُ الْأُكْلَةَ وَالْأُكْلَتَانِ، وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَيْسَ لَهُ غِنًى وَيَسْتَحْيِي أَوْ لَا يَسْأَلُ النَّاسَ إِلْحَافًا".
ہم سے حجاج بن منہال نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے محمد بن زیاد نے خبر دی انہوں نے کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں جسے ایک دو لقمے در در پھرائیں۔ مسکین تو وہ ہے جس کے پاس مال نہیں۔ لیکن اسے سوال سے شرم آتی ہے اور وہ لوگوں سے چمٹ کر نہیں مانگتا (مسکین وہ جو کمائے مگر بقدر ضرورت نہ پا سکے)۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1476]
حدیث نمبر: 1477
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عُلَيَّةَ، حَدَّثَنَا خَالِدٌ الْحَذَّاءُ، عَنْ ابْنِ أَشْوَعَ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، حَدَّثَنِي كَاتِبُ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، قَالَ: كَتَبَ مُعَاوِيَةُ إِلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ، أَنِ اكْتُبْ إِلَيَّ بِشَيْءٍ سَمِعْتَهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَكَتَبَ إِلَيْهِ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:" إِنَّ اللَّهَ كَرِهَ لَكُمْ ثَلَاثًا، قِيلَ وَقَالَ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے خالد حذاء نے بیان کیا ‘ ان سے ابن اشوع نے ‘ ان سے عامر شعبی نے۔ کہا کہ مجھ سے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کے منشی وراد نے بیان کیا۔ کہ معاویہ رضی اللہ عنہ نے مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ انہیں کوئی ایسی حدیث لکھئے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو۔ مغیرہ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تین باتیں پسند نہیں کرتا۔ بلاوجہ کی گپ شپ، فضول خرچی اور لوگوں سے بہت مانگنا۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1477]
حدیث نمبر: 1478
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ غُرَيْرٍ الزُّهْرِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:" أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَهْطًا وَأَنَا جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُمْ رَجُلًا لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُمْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَسَارَرْتُهُ، فَقُلْتُ: مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا , قَالَ أَوْ مُسْلِمًا؟ , قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا , قَالَ أَوْ مُسْلِمًا؟ , قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ فِيهِ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، وَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا قَالَ أَوْ مُسْلِمًا يَعْنِي؟، فَقَالَ: إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ"، وَعَنْ أَبِيهِ، عَنْ صَالِحٍ، عَنْ إِسْمَاعِيلَ بْنِ مُحَمَّدٍ، أَنَّهُ قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ بِهَذَا، فَقَالَ فِي حَدِيثِهِ: فَضَرَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَجَمَعَ بَيْنَ عُنُقِي وَكَتِفِي، ثُمَّ قَالَ: أَقْبِلْ أَيْ سَعْدُ إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ: فَكُبْكِبُوا قُلِبُوا فَكُبُّوا مُكِبًّا، أَكَبَّ الرَّجُلُ إِذَا كَانَ فِعْلُهُ غَيْرَ وَاقِعٍ عَلَى أَحَدٍ، فَإِذَا وَقَعَ الْفِعْلُ، قُلْتَ: كَبَّهُ اللَّهُ لِوَجْهِهِ وَكَبَبْتُهُ أَنَا.
ہم سے محمد بن غریر زہری نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے اپنے باپ سے بیان کیا ‘ ان سے صالح بن کیسان نے ان سے ابن شہاب نے ‘ انہوں نے کہا کہ مجھے عامر بن سعد بن ابی وقاص نے اپنے باپ سعد بن ابی وقاص سے خبر دی۔ انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چند اشخاص کو کچھ مال دیا۔ اسی جگہ میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ ہی بیٹھے ہوئے شخص کو چھوڑ دیا اور انہیں کچھ نہیں دیا۔ حالانکہ ان لوگوں میں وہی مجھے زیادہ پسند تھا۔ آخر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر چپکے سے عرض کیا ‘ فلاں شخص کو آپ نے کچھ بھی نہیں دیا؟ واللہ میں اسے مومن خیال کرتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ انہوں نے بیان کیا کہ اس پر میں تھوڑی دیر تک خاموش رہا۔ لیکن میں ان کے متعلق جو کچھ جانتا تھا اس نے مجھے مجبور کیا ‘ اور میں نے عرض کیا ‘ یا رسول اللہ! آپ فلاں شخص سے کیوں خفا ہیں ‘ واللہ! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ‘ یا مسلمان؟ تین مرتبہ ایسا ہی ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک شخص کو دیتا ہوں (اور دوسرے کو نظر انداز کر جاتا ہوں) حالانکہ وہ دوسرا میری نظر میں پہلے سے زیادہ پیارا ہوتا ہے۔ کیونکہ (جس کو میں دیتا ہوں نہ دینے کی صورت میں) مجھے ڈر اس بات کا رہتا ہے کہ کہیں اسے چہرے کے بل گھسیٹ کر جہنم میں نہ ڈال دیا جائے۔ اور (یعقوب بن ابراہیم) اپنے والد سے ‘ وہ صالح سے ‘ وہ اسماعیل بن محمد سے ‘ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے اپنے والد سے سنا کہ وہ یہی حدیث بیان کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میری گردن اور مونڈھے کے بیچ میں مارا۔ اور فرمایا۔ سعد! ادھر سنو۔ میں ایک شخص کو دیتا ہوں۔ آخر حدیث تک۔ ابوعبداللہ (امام بخاری رحمہ اللہ) نے کہا کہ (قرآن مجید میں لفظ) «كبكبوا‏» اوندھے لٹا دینے کے معنی میں ہے۔ اور سورۃ الملک میں جو «مكبا‏» کا لفظ ہے وہ «أكب» سے نکلا ہے۔ «أكب» لازم ہے یعنی اوندھا گرا۔ اور اس کا متعدی «كب» ہے۔ کہتے ہیں کہ «كبه الله لوجهه» یعنی اللہ نے اسے اوندھے منہ گرا دیا۔ اور «كببته» یعنی میں نے اس کو اوندھا گرایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا صالح بن کیسان عمر میں زہری سے بڑے تھے وہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1478]
حدیث نمبر: 1479
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنِي مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ:" لَيْسَ الْمِسْكِينُ الَّذِي يَطُوفُ عَلَى النَّاسِ تَرُدُّهُ اللُّقْمَةُ وَاللُّقْمَتَانِ وَالتَّمْرَةُ وَالتَّمْرَتَانِ، وَلَكِنْ الْمِسْكِينُ الَّذِي لَا يَجِدُ غِنًى يُغْنِيهِ وَلَا يُفْطَنُ بِهِ فَيُتَصَدَّقُ عَلَيْهِ وَلَا يَقُومُ فَيَسْأَلُ النَّاسَ".
ہم سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے امام مالک رحمہ اللہ نے ابوالزناد سے بیان کیا ‘ ان سے اعرج نے ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مسکین وہ نہیں ہے جو لوگوں کا چکر کاٹتا پھرتا ہے تاکہ اسے دو ایک لقمہ یا دو ایک کھجور مل جائیں۔ بلکہ اصلی مسکین وہ ہے جس کے پاس اتنا مال نہیں کہ وہ اس کے ذریعہ سے بےپرواہ ہو جائے۔ اس حال میں بھی کسی کو معلوم نہیں کہ کوئی اسے صدقہ ہی دیدے اور نہ وہ خود ہاتھ پھیلانے کے لیے اٹھتا ہے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1479]
حدیث نمبر: 1480
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، حَدَّثَنَا أَبُو صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" لَأَنْ يَأْخُذَ أَحَدُكُمْ حَبْلَهُ ثُمَّ يَغْدُوَ , أَحْسِبُهُ قَالَ: إِلَى الْجَبَلِ، فَيَحْتَطِبَ فَيَبِيعَ فَيَأْكُلَ وَيَتَصَدَّقَ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَسْأَلَ النَّاسَ"، قَالَ أَبُو عَبْد اللَّهِ صَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ: أَكْبَرُ مِنَ الزُّهْرِيِّ وَهُوَ قَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عُمَرَ.
ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے باپ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوصالح ذکوان نے بیان کیا ‘ اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ‘ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم میں سے کوئی شخص اپنی رسی لے کر (میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا) پہاڑوں میں چلا جائے پھر لکڑیاں جمع کر کے انہیں فروخت کرے۔ اس سے کھائے بھی اور صدقہ بھی کرے۔ یہ اس کے لیے اس سے بہتر ہے کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الزَّكَاة/حدیث: 1480]