الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


صحيح مسلم کل احادیث (7563)
حدیث نمبر سے تلاش:

صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ
سلامتی اور صحت کا بیان
حدیث نمبر: 5726
حَدَّثَنِي عُقْبَةُ بْنُ مُكْرَمٍ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ ، قال: وَأَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: " رَخَّصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِآلِ حَزْمٍ فِي رُقْيَةِ الْحَيَّةِ، وَقَالَ لِأَسْمَاءَ بِنْتِ عُمَيْسٍ: " مَا لِي أَرَى أَجْسَامَ بَنِي أَخِي ضَارِعَةً تُصِيبُهُمُ الْحَاجَةُ؟، قَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ الْعَيْنُ تُسْرِعُ إِلَيْهِمْ، قَالَ: " ارْقِيهِمْ "، قَالَتْ: فَعَرَضْتُ عَلَيْهِ، فَقَالَ: " ارْقِيهِمْ ".
ابوعاصم نے ابن جریج سے روایت کی، کہا: مجھے ابو زبیر نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آل (بنو عمروبن) حزم کو سانپ (کے کا ٹے) کا دم کرنے کی اجازت دی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا سے فرمایا: "کیا ہوا ہے میں نے اپنے بھا ئی (حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کے بچوں کے جسم لا غر دیکھ رہا ہوں، کیا انھیں بھوکا رہنا پڑتا ہے؟"انھوں نے کہا: نہیں لیکن انھیں نظر بد جلدی لگ جاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا: "انھیں دم کرو۔"انھوں (اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا) نے کہا: تومیں نے (دم کے الفاظ کو) آپ کے سامنے پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر مایا: " (ان الفاظ سے) ان کو دم کردو۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حزم کے خاندان کو سانپ سے دم کرانے کی اجازت دی اور اسماء بنت عمیس رضی اللہ تعالی عنہا سے فرمایا: کیا وجہ ہے، میں اپنے بھائی جعفر کے بچوں کو دبلا پتلا دیکھ رہا ہوں، کیا انہیں غذا کی ضرورت ہے۔ اس نے کہا، نہیں، لیکن انہیں نظر بہت جلد لگ جاتی ہے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دم کرو۔ تو میں نے آپ پر دم پیش کیا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انہیں دم کرو۔
حدیث نمبر: 5727
وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: أَرْخَصَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رُقْيَةِ الْحَيَّةِ لِبَنِي عَمْرٍو، قَالَ أَبُو الزُّبَيْر: وَسَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ، يَقُولُ: لَدَغَتْ رَجُلًا مِنَّا عَقْرَبٌ وَنَحْنُ جُلُوسٌ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرْقِي، قَالَ: " مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَفْعَلْ ".
روح بن عبادہ نے کہا: ہمیں ابن جریج نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابو زبیر نے بتا یا کہ انھوں نے حضرت جا بر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے ہو ئے سنا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عمرو (بن حزم) کو سانپ کے ڈسنے کی صورت میں دم کرنے کی اجا زت دی۔ابو زبیر نے کہا: میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے (یہ بھی) سنا، وہ کہتے تھے: ہم میں سے ایک شخص کو بچھو نے ڈنگ مار دیا، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بیٹھے ہو ئے تھے۔کہ ایک آدمی نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں دم کردوں؟آپ نے فرما یا: " تم میں سے جو شخص اپنے بھا ئی کو فا ئدہ پہنچا سکتا ہو تو اسے ایسا کرنا چا ہیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو عمرو کو سانپ کے دم کی اجازت دی اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہما بیان کرتے ہیں، ہم میں سے ایک آدمی کو بچھو نے ڈسل لیا، جبکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے تو ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! میں دم کروں؟ آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو وہ پہنچائے۔
حدیث نمبر: 5728
وحدثني سَعِيدُ بْنُ يَحْيَي الْأُمَوِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُ، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَرْقِيهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَمْ يَقُلْ أَرْقِي.
سعید بن یحییٰ اموی کے والد نے کہا: ہمیں ابن جریج نے اسی سند کے ساتھ اسی کی مثل روایت بیان کی مگر انھوں نے کہا: لو گوں میں سے ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !کیا میں اس کو دم کردوں؟اور (صرف): "دم کردوں"نہیں کہا۔
امام صاحب یہی روایت ایک اور استاد سے بیان کرتے ہیں، اس میں یہ ہے کہ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، اے اللہ کے رسول! میں اسے دم کروں، صرف میں دم کروں نہیں کہا۔
حدیث نمبر: 5729
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو سَعِيدٍ الْأَشَجُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قال: كَانَ لِي خَالٌ يَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، فَنَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى، قَالَ: فَأَتَاهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى، وَأَنَا أَرْقِي مِنَ الْعَقْرَبِ، فَقَالَ: " مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَفْعَلْ ".
وکیع نے اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میرے ایک ماموں تھے وہ بچھوکے کا ٹے پردم کرتے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (عمومی طور ہر طرح کے) دم کرنے سے منع فرمایا۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہو ئے اور کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے دم کرنے سے منع فرما دیا ہے۔میں بچھو کے کاٹے سے دم کرتا ہوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے جو کوئی اپنے بھا ئی کو فا ئدہ پہنچا سکتا ہو تو وہ ایسا کرے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، میرا ایک ماموں بچھو ڈسنے کا دم کرتا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے روک دیا تو وہ آپ کے پاس آ کر کہنے لگا: اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے دموں سے منع فرما دیا ہے اور میں بچھو ڈسنے کا کام کرتا ہوں تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو بھی اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو، پہنچائے۔
حدیث نمبر: 5730
وحدثنا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
جریر نے اعمش سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
امام صاحب کو یہی روایت ایک اور استاد نے سنائی۔
حدیث نمبر: 5731
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَالَ نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّقَى، فَجَاءَ آلُ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ كَانَتْ عِنْدَنَا رُقْيَةٌ نَرْقِي بِهَا مِنَ الْعَقْرَبِ، وَإِنَّكَ نَهَيْتَ عَنِ الرُّقَى، قَالَ: فَعَرَضُوهَا عَلَيْهِ، فَقَالَ: " مَا أَرَى بَأْسًا مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمْ أَنْ يَنْفَعَ أَخَاهُ فَلْيَنْفَعْهُ ".
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے سفیان سے، انھوں نے حضرت جا بر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے منع فرما دیا تو عمرو بن حزم کا خاندان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حا ضر ہوا اور عرض کی، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ہمارے پاس دم (کرنے کا ایک کلمہ) تھا۔ہم اس سے بچھو کے ڈسے ہو ئے کو دم کرتے تھے اور آپ نے دم کرنے سے منع فر ما دیا۔انھوں (جا بر رضی اللہ عنہ) نے کہا: تو انھوں نے وہ پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میں (اس میں کوئی) حرج نہیں سمجھتا۔تم میں سے جو کوئی اپنے بھا ئی کو فائدہ پہنچاسکتا ہو تو وہ ضرور اسے فائدہ پہنچائے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دم کرنے سے منع کر دیا تو عمر ابن حزم کے خاندان کے لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے، اے اللہ کے رسول! واقعہ یہ ہے کہ ہمارے پاس ایک دم ہے، جو ہم بچھو کے ڈسنے پر کرتے ہیں، اور آپ نے دم کرنے سے منع کر دیا ہے اور انہوں نے وہ دم آپ پر پیش کیا تو آپ نے فرمایا: میں اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتا، تم میں سے جو اپنے بھائی کو نفع پہنچا سکتا ہو، نفع پہنچائے۔
22. باب لاَ بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ:
22. باب: جس دم کے کلمات میں شرک نہ ہو اس کے ساتھ دم کرنے میں کوئی حرج نہ ہونے کا بیان میں۔
حدیث نمبر: 5732
حَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قال: كُنَّا نَرْقِي فِي الْجَاهِلِيَّةِ، فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، كَيْفَ تَرَى فِي ذَلِكَ؟، فَقَالَ: " اعْرِضُوا عَلَيَّ رُقَاكُمْ لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ".
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: ہم زمانہ جاہلیت میں دم کیا کرتے تھے ہم نے عرض کی: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " اپنے دم کے کلمات میرے سامنے پیش کرو دم میں کوئی حرج نہیں جب تک اس میں شرک نہ ہو۔"
حضرت عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم جاہلیت کے دور میں دم کرتے تھے، سو ہم نے کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اپنا دم مجھ پر پیش کرو، مجھے سناؤ، دم کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس میں شرک نہ ہو۔
23. باب جَوَازِ أَخْذِ الأُجْرَةِ عَلَى الرُّقْيَةِ بِالْقُرْآنِ وَالأَذْكَارِ:
23. باب: قرآن یا دعا سے منتر کر کے اس پر اجرت لینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5733
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ ، عَنْ أَبِي الْمُتَوَكِّلِ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، أَنَّ نَاسًا مِنْ أَصْحَابِ ِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانُوا فِي سَفَرٍ، فَمَرُّوا بِحَيٍّ مِنْ أَحْيَاءِ الْعَرَبِ، فَاسْتَضَافُوهُمْ فَلَمْ يُضِيفُوهُمْ، فَقَالُوا لَهُمْ: هَلْ فِيكُمْ رَاقٍ فَإِنَّ سَيِّدَ الْحَيِّ لَدِيغٌ أَوْ مُصَابٌ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْهُمْ: نَعَمْ، فَأَتَاهُ فَرَقَاهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَبَرَأَ الرَّجُلُ فَأُعْطِيَ قَطِيعًا مِنْ غَنَمٍ فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، وَقَالَ: حَتَّى أَذْكُرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا رَقَيْتُ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ فَتَبَسَّمَ، وَقَالَ: " وَمَا أَدْرَاكَ أَنَّهَا رُقْيَةٌ؟ "، ثُمَّ قَالَ: " خُذُوا مِنْهُمْ وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ مَعَكُمْ ".
ہشیم نے ابو بشر سے، انھوں نے ابو متوکل سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کے چند صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین سفر میں تھے عرب کے قبائل میں سے کسی قبیلے کے سامنے سے ان کا گزر ہوا انھوں نے ان (قبیلے والے) لوگوں سے چاہا کہ وہ انھیں اپنا مہمان بنائیں۔انھوں نے مہمان بنانے سے انکا ر کر دیا، پھر انھوں نے کہا: کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے کیونکہ قوم کے سردار کو کسی چیز نے ڈس لیا ہے یا اسے کوئی بیماری لا حق ہو گئی ہے۔ان (صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین) میں سے ایک آدمی نے کہا: ہاں پھر وہ اس کے قریب آئے اور اسے فاتحہ الکتاب سے دم کر دیا۔وہ آدمی ٹھیک ہو گیا تو اس (دم کرنے والے) کو بکریوں کاا یک ریوڑ (تیس بکریاں) پیش کی گئیں۔ اس نے انھیں (فوری طور پر) قبول کرنے (کا م میں لا نے) سے انکا ر کر دیا اور کہا: یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کو ماجرا سنادوں۔وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کی خدمت میں حا ضر ہوا اور سارا ماجرا آپ کو سنایا اور کہا اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !!میں فاتحہ الکتاب کے علاوہ اور کوئی دم نہیں کیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرما یا: "تمھیں کیسے پتہ چلا کہ وہ دم (بھی) ہے؟"پھر انھیں لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھو۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ ساتھی سفر پر تھے تو وہ عربی قبائل میں سے ایک قبیلہ سے گزرے اور ان سے مہمان نوازی چاہی تو انہوں نے ان کی مہمان نوازی نہ کی، (بعد میں) صحابہ سے پوچھنے لگے، کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ کیونکہ قبیلہ کا سردار، اسے بچھو نے ڈس لیا ہے، یا اس کی عقل میں خرابی پیدا ہو گئی ہے تو ان میں سے ایک نے کہا، ہاں، سو وہ ان کے سردار کے پاس گیا اور اسے فاتحہ الکتاب سے دم کیا، وہ آدمی تندرست ہو گیا اور بکریوں کا ایک ریوڑ دیا، سو اس نے ساتھیوں کی بات ماننے سے انکار کیا اور کہا، حتی کہ میں اس کا تذکرہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کروں، سو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے اس واقعہ کا تذکرہ کیا اور کہا، اے اللہ کے رسولصلی اللہ علیہ وسلم! اللہ کی قسم! میں نے تو صرف سورہ فاتحہ سے دم کیا، آپ مسکرا پڑے اور فرمایا: تمہیں کیسے پتہ چلا کہ یہ دم ہے؟ پھر آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان سے لے لو اور اپنے ساتھ میرا بھی حصہ رکھو۔
حدیث نمبر: 5734
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ كِلَاهُمَا، عَنْ غُنْدَرٍ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ أَبِي بِشْرٍ بِهَذَا الْإِسْنَادِ، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: فَجَعَلَ يَقْرَأُ أُمَّ الْقُرْآنِ وَيَجْمَعُ بُزَاقَهُ وَيَتْفِلُ فَبَرَأَ الرَّجُلُ.
شعبہ نے ابو بشر سے اسی سند کے ساتھ روایت کی، اور حدیث میں یہ کہا: اس نے ام القرآن (سورۃفاتحہ) پڑھنی شروع کی اور اپنا تھوک جمع کرتا اور اس پر پھینکتا جاتا تو وہ آدمی تندرست ہوگیا۔
امام صاحب کو یہ روایت دو اور اساتذہ نے بھی ابو بشر کی مذکورہ سند سے سنائی اور اس میں یہ ہے، وہ ام القرآن پڑھنے لگا اور اپنی تھوک جمع کر کے تھوکتا، وہ آدمی تندرست ہو گیا۔
حدیث نمبر: 5735
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا هِشَامُ بْنُ حَسَّانَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَخِيهِ مَعْبَدِ بْنِ سِيرِينَ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قال: نَزَلْنَا مَنْزِلًا فَأَتَتْنَا امْرَأَةٌ، فَقَالَتْ: إِنَّ سَيِّدَ الْحَيِّ سَلِيمٌ لُدِغَ، فَهَلْ فِيكُمْ مِنْ رَاقٍ؟، فَقَامَ مَعَهَا رَجُلٌ مِنَّا مَا كُنَّا نَظُنُّهُ يُحْسِنُ رُقْيَةً، فَرَقَاهُ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، فَبَرَأَ فَأَعْطَوْهُ غَنَمًا وَسَقَوْنَا لَبَنًا، فَقُلْنَا: أَكُنْتَ تُحْسِنُ رُقْيَةً؟، فَقَالَ: مَا رَقَيْتُهُ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ، قَالَ: فَقُلْتُ: لَا، تُحَرِّكُوهَا حَتَّى نَأْتِيَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَتَيْنَا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " مَا كَانَ يُدْرِيهِ أَنَّهَا رُقْيَةٌ اقْسِمُوا وَاضْرِبُوا لِي بِسَهْمٍ مَعَكُمْ ".
یزید بن ہارون نے کہا: ہمیں ہشام بن حسان نے محمد بن سیرین سےخبر دی، انھوں نے ا پنے بھائی معبد بن سیرین سے، انھوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے، روایت کی، کہا: ہم نے ایک مقام پر پڑاؤکیا، ایک عورت ہمارے پاس آئی اور کہا: قبیلے کےسردار کو ڈنک لگا ہے، (اسے بچھو نے ڈنک ماراہے) کیا تم میں سے کوئی دم کرنے والا ہے؟ہم میں سے ایک آدمی اس کے ساتھ (جانے کےلئے) کھڑا ہوگیا، اس کے بارے میں ہمارا خیال نہیں تھا کہ وہ اچھی طرح دم کرسکتا ہے۔اس نے اس (ڈسے ہوئے) کو فاتحہ سے دم کیاتو وہ ٹھیک ہوگیا، تو انھوں نے اسے بکریوں کا ایک ریوڑ دیا اور ہم سب کو دودھ پلایا۔ہم نے (اس سے) پوچھا: کیا تم اچھی طرح دم کرنا جانتے تھے؟اس نے کہا: میں نے اسے صرف فاتحۃ الکتاب سے دم کیا ہے۔کہا: میں نے (ساتھیوں سے) کہا: ان بکریوں کو کچھ نہ کہو یہاں تک کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوجائیں۔ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ کو یہ بات بتائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اسے کس ذریعے سے پتہ چلا کہ یہ (فاتحہ) دم (کا کلمہ بھی) ہے؟ان (بکریوں) کو بانٹ لو اور اپنے داتھ میرا بھی حصہ رکھو۔"
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا تو ہمارے پاس ایک عورت آ کر کہنے لگی، قبیلہ کے سردار کو بچھو نے ڈس لیا ہے تو کیا تم میں کوئی دم کرنے والا ہے؟ سو اس کے ساتھ ہم میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا، ہم نہیں سمجھتے تھے کہ وہ کوئی دم اچھی طرح کر سکتا ہے، اس نے اسے سورہ فاتحہ سے دم کیا تو وہ تندرست ہو گیا، انہوں نے ہمیں بکریاں دیں اور دودھ پلایا، ہم نے اس سے پوچھا، کیا تمہیں دم کرنا آتا ہے؟ اس نے کہا، میں نے سورہ فاتحہ ہی سے دم کیا ہے، میں نے کہا، ان بکریوں کو نہ چھیڑو، حتی کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو جائیں تو ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے اور آپصلی اللہ علیہ وسلم کو واقعہ سنایا، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: اسے کیسے پتہ چلا ہے، یہ سورۃ دم ہے؟ بانٹ لو اور اپنے ساتھ میرا حصہ بھی رکھو۔

Previous    5    6    7    8    9    10    11    12    13    Next