الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
أبواب قيام الليل
ابواب: قیام الیل کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 1364
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ اللَّيْثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ جَدِّي، عَنْ خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ، عَنْ مَخْرَمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ،أَنَّ كُرَيْبًا مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ قَالَ: سَأَلْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ: كَيْفَ كَانَتْ صَلَاةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِاللَّيْلِ؟ قَالَ: بِتُّ عِنْدَهُ لَيْلَةً وَهُوَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ،" فَنَامَ حَتَّى إِذَا ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ نِصْفُهُ اسْتَيْقَظَ، فَقَامَ إِلَى شَنٍّ فِيهِ مَاءٌ، فَتَوَضَّأَ وَتَوَضَّأْتُ مَعَهُ، ثُمَّ قَامَ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ عَلَى يَسَارِهِ فَجَعَلَنِي عَلَى يَمِينِهِ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِي كَأَنَّهُ يَمَسُّ أُذُنِي كَأَنَّهُ يُوقِظُنِي، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، قُلْتُ فَقَرَأَ فِيهِمَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، ثُمَّ سَلَّمَ، ثُمَّ صَلَّى حَتَّى صَلَّى إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ، ثُمَّ نَامَ، فَأَتَاهُ بِلَالٌ، فَقَالَ: الصَّلَاةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَامَ فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى لِلنَّاسِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز (تہجد) کیسے ہوتی تھی؟ تو انہوں نے کہا: ایک رات میں آپ کے پاس رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ام المؤمنین میمونہ کے پاس تھے، آپ سو گئے، جب ایک تہائی یا آدھی رات گزر گئی تو بیدار ہوئے اور اٹھ کر مشکیزے کے پاس گئے، جس میں پانی رکھا تھا، وضو فرمایا، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وضو کیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں پہلو میں کھڑا ہو گیا تو آپ نے مجھے اپنے دائیں جانب کر لیا، پھر اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا جیسے آپ میرے کان مل رہے ہوں گویا مجھے بیدار کرنا چاہتے ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں ان میں سے ہر رکعت میں آپ نے سورۃ فاتحہ پڑھی، پھر سلام پھیر دیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی یہاں تک کہ مع وتر گیارہ رکعتیں ادا کیں، پھر سو گئے، اس کے بعد بلال رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے: اللہ کے رسول! نماز، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور دو رکعتیں پڑھیں پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1364]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الطہارة 37 (183)، الأذان 58 (698)، الوتر 1 (992)، التفسیر 18 (4570)، 19 (4571)، 20 (4572)، صحیح مسلم/المسافرین 26 (763)، سنن الترمذی/الشمائل (265)، سنن النسائی/قیام اللیل 9 (1621)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 181 (1363)، (تحفة الأشراف: 6362)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/صلاة اللیل 2 (11)، مسند احمد 1 (222، 358) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1365
حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ حَبِيبٍ، وَيَحْيَى بْنُ مُوسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنْ ابْنِ طَاوُسٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ بْنِ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: بِتُّ عِنْدَ خَالَتِي مَيْمُونَةَ" فَقَامَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي مِنَ اللَّيْلِ، فَصَلَّى ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً مِنْهَا رَكْعَتَا الْفَجْرِ حَزَرْتُ قِيَامَهُ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ بِقَدْرِ يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، لَمْ يَقُلْ نُوحٌ، مِنْهَا رَكْعَتَا الْفَجْرِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے اپنی خالہ ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک رات گزاری تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رات کو اٹھ کر نماز پڑھنے لگے، آپ نے تیرہ رکعتیں پڑھیں، ان میں فجر کی دونوں رکعتیں بھی شامل تھیں، میرا اندازہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام ہر رکعت میں سورۃ مزمل کے بقدر ہوتا تھا، نوح کی روایت میں یہ نہیں ہے: اس میں فجر کی دونوں رکعتیں بھی شامل تھیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1365]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الإمامة 22 (807)، والکبری/ الوتر 59 (1425)، (تحفة الأشراف: 5984) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح لم يقل نوح منها ركعتا الفجر

حدیث نمبر: 1366
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسِ بْنِ مَخْرَمَةَ أَخْبَرَهُ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: لَأَرْمُقَنَّ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللَّيْلَةَ، قَالَ: فَتَوَسَّدْتُ عَتَبَتَهُ أَوْ فُسْطَاطَهُ" فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ طَوِيلَتَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُمَا دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ دُونَ اللَّتَيْنِ قَبْلَهُمَا، ثُمَّ أَوْتَرَ، فَذَلِكَ ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً".
زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ آج رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز (تہجد) ضرور دیکھ کر رہوں گا، چنانچہ میں آپ کی چوکھٹ یا دروازے پر ٹیک لگا کر سوئے رہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں لمبی، بہت لمبی بلکہ بہت زیادہ لمبی پڑھیں، پھر دو رکعتیں ان سے کچھ ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی کچھ ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی ہلکی، پھر دو رکعتیں ان سے بھی ہلکی پڑھیں، پھر وتر پڑھی، اس طرح یہ کل تیرہ رکعتیں ہوئیں۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1366]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المسافرین 26 (765)، سنن الترمذی/الشمائل (269)، سنن النسائی/الکبری/قیام اللیل 26 (1336)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 181 (1362)، (تحفة الأشراف: 3753)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الصلاة 2 (12)، مسند احمد (5/192) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1367
حَدَّثَنَا الْقَعْنَبِيُّ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ مَخْرمَةَ بْنِ سُلَيْمَانَ، عَنْ كُرَيْبٍ موْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ بَاتَ عِنْدَ مَيْمُونَةَ زَوْجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهِيَ خَالَتُهُ، قَالَ: فَاضْطَجَعْتُ فِي عَرْضِ الْوِسَادَةِ" وَاضْطَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَهْلُهُ فِي طُولِهَا، فَنَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا انْتَصَفَ اللَّيْلُ أَوْ قَبْلَهُ بِقَلِيلٍ أَوْ بَعْدَهُ بِقَلِيلٍ اسْتَيْقَظَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَلَسَ يَمْسَحُ النَّوْمَ عَنْ وَجْهِهِ بِيَدِهِ، ثُمَّ قَرَأَ الْعَشْرَ الْآيَاتِ الْخَوَاتِمِ مِنْ سُورَةِ آلِ عِمْرَانَ، ثُمَّ قَامَ إِلَى شَنٍّ مُعَلَّقَةٍ، فَتَوَضَّأَ مِنْهَا، فَأَحْسَنَ وُضُوءَهُ، ثُمَّ قَامَ يُصَلِّي، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: فَقُمْتُ، فَصَنَعْتُ مِثْلَ مَا صَنَعَ، ثُمَّ ذَهَبْتُ فَقُمْتُ إِلَى جَنْبِهِ، فَوَضَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى رَأْسِي فَأَخَذَ بِأُذُنِي يَفْتِلُهَا فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ رَكْعَتَيْنِ، قَالَ الْقَعْنَبِيُّ: سِتَّ مَرَّاتٍ، ثُمَّ أَوْتَرَ، ثُمَّ اضْطَجَعَ حَتَّى جَاءَهُ الْمُؤَذِّنُ، فَقَامَ فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ خَفِيفَتَيْنِ، ثُمَّ خَرَجَ فَصَلَّى الصُّبْحَ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے غلام کریب سے روایت ہے کہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ انہوں نے ایک رات ام المؤمنین میمونہ رضی اللہ عنہا کے ہاں گزاری، وہ آپ کی خالہ تھیں، وہ کہتے ہیں: میں تکیے کے عرض میں لیٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی اہلیہ اس کے طول میں لیٹیں، پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سو گئے، جب آدھی رات یا کچھ کم و بیش گزری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیدار ہوئے اور بیٹھ کر اپنے منہ پر ہاتھ مل کر نیند دور کی، پھر سورۃ آل عمران کے آخر کی دس آیتیں پڑھیں، اس کے بعد اٹھے اور لٹکے ہوئے مشکیزے کے پاس گئے اور وضو کیا اور اچھی طرح سے کیا، پھر نماز پڑھنے لگے، میں بھی اٹھا اور میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی طرح سارا کام کیا، پھر آپ کے پہلو میں جا کر کھڑا ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دایاں ہاتھ میرے سر پر رکھا اور میرا کان پکڑ کر ملنے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں، پھر دو رکعتیں اور پھر دو رکعتیں، قعنبی کی روایت میں یوں ہے: دو دو رکعتیں چھ مرتبہ پڑھیں، پھر وتر پڑھی، پھر لیٹ گئے یہاں تک کہ مؤذن آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھے اور ہلکی سی دو رکعتیں پڑھیں پھر نکلے اور فجر پڑھائی۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1367]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم (1364)، (تحفة الأشراف: 6362) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

28. باب مَا يُؤْمَرُ بِهِ مِنَ الْقَصْدِ فِي الصَّلاَةِ
28. باب: نماز میں میانہ روی اختیار کرنے کا حکم ہے۔
حدیث نمبر: 1368
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" اكْلَفُوا مِنَ الْعَمَلِ مَا تُطِيقُونَ، فَإِنَّ اللَّهَ لَا يَمَلُّ حَتَّى تَمَلُّوا، وَإِنَّ أَحَبَّ الْعَمَلِ إِلَى اللَّهِ أَدْوَمُهُ وَإِنْ قَلَّ، وَكَانَ إِذَا عَمِلَ عَمَلًا أَثْبَتَهُ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عمل کرتے رہو جتنا تم سے ہو سکے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ (ثواب دینے سے) نہیں تھکتا یہاں تک کہ تم (عمل کرنے سے) تھک جاؤ، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو پابندی کے ساتھ کیا جائے اگرچہ وہ کم ہو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کام شروع کرتے تو اس پر جمے رہتے۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1368]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 32 (43)، الأذان 81 (730)، والتھجد 18 (1152)، واللباس 43 (5861)، والرقاق 18 (6465)، صحیح مسلم/المسافرین 30 (782)، سنن النسائی/القبلة 13 (763)، سنن ابن ماجہ/إقامة الصلاة 36 (942)، (تحفة الأشراف: 17720)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/40، 51، 61، 241) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1369
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدٍ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ إِلَى عُثْمَانَ بْنِ مَظْعُونٍ، فَجَاءَهُ، فَقَالَ:" يَا عُثْمَانُ، أَرَغِبْتَ عَنْ سُنَّتِي؟" قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَلَكِنْ سُنَّتَكَ أَطْلُبُ، قَالَ:" فَإِنِّي أَنَامُ، وَأُصَلِّي، وَأَصُومُ، وَأُفْطِرُ، وَأَنْكِحُ النِّسَاءَ، فَاتَّقِ اللَّهَ يَا عُثْمَانُ فَإِنَّ لِأَهْلِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِضَيْفِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، وَإِنَّ لِنَفْسِكَ عَلَيْكَ حَقًّا، فَصُمْ وَأَفْطِرْ، وَصَلِّ وَنَمْ".
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، تو وہ آپ کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عثمان! کیا تم نے میرے طریقے سے بے رغبتی کی ہے؟، انہوں نے جواب دیا: نہیں اللہ کے رسول! اللہ کی قسم، ایسی بات نہیں، میں تو آپ ہی کی سنت کا طالب رہتا ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تو سوتا بھی ہوں، نماز بھی پڑھتا ہوں، روزے بھی رکھتا ہوں اور نہیں بھی رکھتا، اور عورتوں سے نکاح بھی کرتا ہوں، عثمان! تم اللہ سے ڈرو، کیونکہ تم پر تمہاری بیوی کا حق ہے، تمہارے مہمان کا بھی حق ہے، تمہاری جان کا حق ہے، لہٰذا کبھی روزہ رکھو اور کبھی نہ رکھو، اسی طرح نماز پڑھو اور سویا بھی کرو ۱؎۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1369]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 17183)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/226، 286) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 1370
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَائِشَةَ: كَيْفَ كَانَ عَمَلُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ هَلْ كَانَ يَخُصُّ شَيْئًا مِنَ الْأَيَّامِ؟ قَالَتْ: لَا،" كَانَ كُلُّ عَمَلِهِ دِيمَةً" وَأَيُّكُمْ يَسْتَطِيعُ مَا كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَطِيعُ؟.
علقمہ کہتے ہیں کہ میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل کا حال کیسا تھا؟ کیا آپ عمل کے لیے کچھ دن خاص کر لیتے تھے؟ انہوں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل مداومت و پابندی کے ساتھ ہوتا تھا اور تم میں کون اتنی طاقت رکھتا ہے جتنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رکھتے تھے؟۔ [سنن ابي داود/أبواب قيام الليل /حدیث: 1370]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الرقاق 18 (6466)، صحیح مسلم/المسافرین 30 (783)، سنن الترمذی/الشمائل (310)، (تحفة الأشراف: 17406)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/43، 55، 174، 189، 278) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    3    4    5    6    7