الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَابُ الْإِجَارَةِ
کتاب: اجارے کے احکام و مسائل
حدیث نمبر: 3466
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُصَفَّى، حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي غَنِيَّةَ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ:" غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الشَّامَ، فَكَانَ يَأْتِينَا أَنْبَاطٌ مِنْ أَنْبَاطِ الشَّامِ، فَنُسْلِفُهُمْ فِي الْبُرِّ وَالزَّيْتِ سِعْرًا مَعْلُومًا وَأَجَلًا مَعْلُومًا، فَقِيلَ لَهُ: مِمَّنْ لَهُ ذَلِكَ، قَالَ: مَا كُنَّا نَسْأَلُهُمْ".
عبداللہ بن ابی اوفی اسلمی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شام میں جہاد کیا تو شام کے کاشتکاروں میں سے بہت سے کاشتکار ہمارے پاس آتے، تو ہم ان سے بھاؤ اور مدت معلوم و متعین کر کے گیہوں اور تیل کا سلف کرتے (یعنی پہلے رقم دے دیتے پھر متعینہ بھاؤ سے مقررہ مدت پر مال لے لیتے تھے) ان سے کہا گیا: آپ ایسے لوگوں سے سلم کرتے رہے ہوں گے جن کے پاس یہ مال موجود رہتا ہو گا، انہوں نے کہا: ہم یہ سب ان سے نہیں پوچھتے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3466]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 5168)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/السلم 3 (2241)، 7 (2253) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره

22. باب فِي السَّلَمِ فِي ثَمَرَةٍ بِعَيْنِهَا
22. باب: کسی خاص درخت کے پھل کی بیع سلم کرنا کیسا ہے؟
حدیث نمبر: 3467
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ رَجُلٍ نَجْرَانِيٍّ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، أَنَّ رَجُلًا أَسْلَفَ رَجُلًا فِي نَخْلٍ، فَلَمْ تُخْرِجْ تِلْكَ السَّنَةَ شَيْئًا، فَاخْتَصَمَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: بِمَ تَسْتَحِلُّ مَالَهُ ارْدُدْ عَلَيْهِ مَالَهُ؟ ثُمَّ قَالَ: لَا تُسْلِفُوا فِي النَّخْلِ حَتَّى يَبْدُوَ صَلَاحُهُ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے ایک شخص سے کھجور کے ایک خاص درخت کے پھل کی بیع سلف کی، تو اس سال اس درخت میں کچھ بھی پھل نہ آیا تو وہ دونوں اپنا جھگڑا لے کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیچنے والے سے فرمایا: تم کس چیز کے بدلے اس کا مال اپنے لیے حلال کرنے پر تلے ہوئے ہو؟ اس کا مال اسے لوٹا دو پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کھجوروں میں جب تک وہ قابل استعمال نہ ہو جائیں سلف نہ کرو۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3467]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/التجارات 61 (2284)، (تحفة الأشراف: 8595)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/البیوع 21 (49)، مسند احمد (2/25، 49، 51، 58، 144) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں ایک راوی رجل نجرانی مبہم ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

23. باب السَّلَفِ لاَ يُحَوَّلُ
23. باب: بیع سلف کے ذریعہ خریدی گئی چیز بدلی نہ جائے۔
حدیث نمبر: 3468
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا أَبُو بَدْرٍ، عَنْ زِيَادِ بْنِ خَيْثَمَةَ، عَنْ سَعْدٍ يَعْنِي الطَّائِيَّ، عَنْ عَطِيَّةَ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أَسْلَفَ فِي شَيْءٍ فَلَا يَصْرِفْهُ إِلَى غَيْرِهِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی پہلے قیمت دے کر کوئی چیز خریدے تو وہ چیز کسی اور چیز سے نہ بدلے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3468]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/التجارات 60 (2283)، (تحفة الأشراف: 4204) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی عطیہ عوفی ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

24. باب فِي وَضْعِ الْجَائِحَةِ
24. باب: کھیت یا باغ پر کوئی آفت آ جائے تو خریدار کے نقصان کی تلافی ہونی چاہئے۔
حدیث نمبر: 3469
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ بُكَيْرٍ، عَنْ عِيَاضِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ قَالَ:" أُصِيبَ رَجُلٌ فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثِمَارٍ ابْتَاعَهَا فَكَثُرَ دَيْنُهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَصَدَّقُوا عَلَيْهِ، فَتَصَدَّقَ النَّاسُ عَلَيْهِ فَلَمْ يَبْلُغْ ذَلِكَ وَفَاءَ دَيْنِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خُذُوا مَا وَجَدْتُمْ وَلَيْسَ لَكُمْ إِلَّا ذَلِكَ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص کے پھلوں پر جسے اس نے خرید رکھا تھا کوئی آفت آ گئی چنانچہ اس پر بہت سارا قرض ہو گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسے خیرات دو تو لوگوں نے اسے خیرات دی، لیکن خیرات اتنی اکٹھا نہ ہوئی کہ جس سے اس کے تمام قرض کی ادائیگی ہو جاتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس کے قرض خواہوں سے) فرمایا: جو پا گئے وہ لے لو، اس کے علاوہ اب کچھ اور دینا لینا نہیں ہے ۱؎ (یہ گویا مصیبت میں تمہاری طرف سے اس کے ساتھ رعایت و مدد ہے)۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3469]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساقاة 4 (1556)، سنن الترمذی/الزکاة 24 (655)، سنن النسائی/البیوع 28 (4534)، 93 (4682)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 25، (2356)، (تحفة الأشراف: 4270)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/56، 58) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3470
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ سَعِيدٍ الْهَمْدَانِيُّ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي ابْنُ جُرَيْجٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَعْمَرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ الْمَعْنَى، أَنَّ أَبَا الزُّبَيْرِ الْمَكِّيَّ أَخْبَرَهُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"إِنْ بِعْتَ مِنْ أَخِيكَ تَمْرًا، فَأَصَابَتْهَا جَائِحَةٌ فَلَا يَحِلُّ لَكَ أَنْ تَأْخُذَ مِنْهُ شَيْئًا بِمَ تَأْخُذُ مَالَ أَخِيكَ بِغَيْرِ حَقٍّ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم اپنے کسی بھائی کے ہاتھ (باغ کا) پھل بیچو پھر اس پھل پر کوئی آفت آ جائے (اور وہ تباہ و برباد ہو جائے) تو تمہارے لیے مشتری سے کچھ لینا جائز نہیں تم ناحق اپنے بھائی کا مال کس وجہ سے لو گے؟ ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3470]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/المساقاة 3 (1554)، سنن النسائی/البیوع 28 (4531)، سنن ابن ماجہ/التجارات 33 (2219)، (تحفة الأشراف: 2798)، وقد أخرجہ: سنن الدارمی/البیوع 22 (2598) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

25. باب فِي تَفْسِيرِ الْجَائِحَةِ
25. باب: «جائحہ» (آفت) کسے کہیں گے؟
حدیث نمبر: 3471
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ الْحَكَمِ، عَنِ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ:" الْجَوَائِحُ كُلُّ ظَاهِرٍ مُفْسِدٍ مِنْ مَطَرٍ، أَوْ بَرَدٍ، أَوْ جَرَادٍ، أَوْ رِيحٍ، أَوْ حَرِيقٍ".
عطاء کہتے ہیں «جائحہ» ہر وہ آفت و مصیبت ہے جو بالکل کھلی ہوئی اور واضح ہو جس کا کوئی انکار نہ کر سکے، جیسے بارش بہت زیادہ ہو گئی ہو، پالا پڑ گیا ہو، ٹڈیاں آ کر صاف کر گئی ہوں، آندھی آ گئی ہو، یا آگ لگ گئی ہو۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3471]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19064) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن مقطوع

حدیث نمبر: 3472
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي عُثْمَانُ بْنُ الْحَكَمِ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، أَنَّهُ قَالَ:" لَا جَائِحَةَ فِيمَا أُصِيبَ دُونَ ثُلُثِ رَأْسِ الْمَالِ". قَالَ يَحْيَى: وَذَلِكَ فِي سُنَّةِ الْمُسْلِمِينَ.
یحییٰ بن سعید کہتے ہیں راس المال کے ایک تہائی سے کم مال پر آفت آئے تو اسے آفت نہیں کہیں گے۔ یحییٰ کہتے ہیں: مسلمانوں میں یہی طریقہ مروج ہے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3472]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 19534) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن مقطوع

26. باب فِي مَنْعِ الْمَاءِ
26. باب: چارہ روکنے کے لیے پانی کو روکنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 3473
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُمْنَعُ فَضْلُ الْمَاءِ لِيُمْنَعَ بِهِ الْكَلَأُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: فاضل پانی سے نہ روکا جائے کہ اس کے ذریعہ سے گھاس سے روک دیا جائے ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3473]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 12357)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المساقاة 2 (2353)، صحیح مسلم/المساقاة 8 (1566)، سنن الترمذی/البیوع 45 (1272)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 19 (2428)، موطا امام مالک/الأقضیة 25 (29) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3474
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ثَلَاثَةٌ لَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: رَجُلٌ مَنَعَ ابْنَ السَّبِيلِ فَضْلَ مَاءٍ عِنْدَهُ، وَرَجُلٌ حَلَفَ عَلَى سِلْعَةٍ بَعْدَ الْعَصْرِ، يَعْنِي كَاذِبًا، وَرَجُلٌ بَايَعَ إِمَامًا فَإِنْ أَعْطَاهُ وَفَى لَهُ، وَإِنْ لَمْ يُعْطِهِ لَمْ يَفِ لَهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہ کرے گا: ایک تو وہ شخص جس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی ہو اور وہ مسافر کو دینے سے انکار کر دے، دوسرا وہ شخص جو اپنا سامان بیچنے کے لیے عصر بعد جھوٹی قسم کھائے، تیسرا وہ شخص جو کسی امام (و سربراہ) سے (وفاداری کی) بیعت کرے پھر اگر امام اسے (دنیاوی مال و جاہ) سے نوازے تو اس کا وفادار رہے، اور اگر اسے کچھ نہ دے تو وہ بھی عہد کی پاسداری نہ کرے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3474]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/السیر 35 (1595)، (تحفة الأشراف: 12472)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الشھادات 22 (2672)، الأحکام 48 (7212)، المساقاة 10 (2369)، صحیح مسلم/الإیمان 46 (108)، سنن النسائی/البیوع 6 (4467)، سنن ابن ماجہ/التجارات 30 (2207)، الجھاد 42 (2870)، مسند احمد (2/253، 480) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3475
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنِ الْأَعْمَشِ، بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ قَالَ: وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ، وَقَالَ فِي السِّلْعَةِ: بِاللَّهِ لَقَدْ أُعْطِيَ بِهَا كَذَا وَكَذَا، فَصَدَّقَهُ الْآخَرُ فَأَخَذَهَا.
اس سند سے بھی اعمش سے اسی طریق سے اسی مفہوم کی حدیث مروی ہے اس میں ہے: ان کو گناہوں سے پاک نہیں کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہو گا اور سامان کے سلسلہ میں یوں کہے: قسم اللہ کی اس مال کے تو اتنے اتنے روپے مل رہے تھے، یہ سن کر خریدار اس کی بات کو سچ سمجھ لے اور اسے (منہ مانگا پیسہ دے کر) لے لے۔ [سنن ابي داود/كِتَابُ الْإِجَارَةِ/حدیث: 3475]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ الشہادات 22 (2672)، صحیح مسلم/ الإیمان 46 (108)، سنن النسائی/ البیوع 6 (4467)، (تحفة الأشراف: 12338) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next