الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابي داود کل احادیث (5274)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابي داود
كِتَاب الْأَقْضِيَةِ
کتاب: قضاء کے متعلق احکام و مسائل
حدیث نمبر: 3631
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ قُدَامَةَ، وَمُؤَمَّلُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ، حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيل، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، قَالَ ابْنُ قُدَامَةَ: إِنَّ أَخَاهُ أَوْ عَمَّهُ، وَقَالَ مُؤَمَّل: إِنَّهُ قَامَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ، فَقَالَ: جِيرَانِي بِمَا أُخِذُوا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ مَرَّتَيْنِ، ثُمَّ ذَكَرَ شَيْئًا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: خَلُّوا لَهُ عَنْ جِيرَانِهِ"، لَمْ يَذْكُرْ مُؤَمَّلٌ وَهُوَ يَخْطُبُ.
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں ابن قدامہ کی روایت میں ہے کہ ان کے بھائی یا ان کے چچا اور مومل کی روایت میں ہے وہ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے اور آپ خطبہ دے رہے تھے تو یہ کہنے لگے: کس وجہ سے میرے پڑوسیوں کو پکڑ لیا گیا ہے؟ تو آپ نے ان سے دو مرتبہ منہ پھیر لیا پھر انہوں نے کچھ ذکر کیا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے پڑوسیوں کو چھوڑ دو اور مومل نے یہ ذکر نہیں کیا ہے کہ آپ خطبہ دے رہے تھے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3631]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11389) (حسن الإسناد)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن الإسناد

30. باب فِي الْوَكَالَةِ
30. باب: وکیل بنانے کا بیان۔
حدیث نمبر: 3632
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَمِّي، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنِ ابْنِ إِسْحَاق، عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ وَهْبِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ سَمِعَهُ يُحَدِّثُ، قَالَ:" أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَأَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، وَقُلْتُ لَهُ: إِنِّي أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى خَيْبَرَ، فَقَالَ: إِذَا أَتَيْتَ وَكِيلِي فَخُذْ مِنْهُ خَمْسَةَ عَشَرَ وَسْقًا، فَإِنِ ابْتَغَى مِنْكَ آيَةً فَضَعْ يَدَكَ عَلَى تَرْقُوَتِهِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے خیبر کی جانب نکلنے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام کیا پھر میں نے عرض کیا: میں خیبر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میرے وکیل کے پاس جانا تو اس سے پندرہ وسق کھجور لے لینا اور اگر وہ تم سے کوئی نشانی طلب کرے تو اپنا ہاتھ اس کے گلے پر رکھ دینا ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3632]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3131) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی ابن اسحاق مدلس ہیں اور عنعنہ سے روایت کئے ہوئے ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

31. باب فِي الْقَضَاءِ
31. باب: قضاء سے متعلق (مزید) مسائل کا بیان۔
حدیث نمبر: 3633
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْمُثَنَّى بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ بُشَيْرِ بْنِ كَعْبٍ الْعَدَوِيِّ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" إِذَا تَدَارَأْتُمْ فِي طَرِيقٍ فَاجْعَلُوهُ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم کسی راستہ کے متعلق جھگڑو تو سات ہاتھ راستہ چھوڑ دو ۱؎۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3633]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الأحکام 20 (1356)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 16 (2338)، (تحفة الأشراف: 12223)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/المظالم 29 (2473)، صحیح مسلم/المساقاة 31 (1613)، مسند احمد (2/466، 474) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3634
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، وَابْنُ أَبِي خَلَفٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ أَخَاهُ أَنْ يَغْرِزَ خَشَبَةً فِي جِدَارِهِ فَلَا يَمْنَعُهُ، فَنَكَّسُوا، فَقَالَ: مَا لِي أَرَاكُمْ قَدْ أَعْرَضْتُمْ؟ لَأُلْقِيَنَّهَا بَيْنَ أَكْتَافِكُمْ"، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَهَذَا حَدِيثُ ابْنِ أَبِي خَلَفٍ وَهُوَ أَتَمُّ.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی اپنے بھائی سے اس کی دیوار میں لکڑی گاڑنے کی اجازت طلب کرے تو وہ اسے نہ روکے یہ سن کر لوگوں نے سر جھکا لیا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا بات ہے جو میں تمہیں اس حدیث سے اعراض کرتے ہوئے دیکھ رہا ہوں، میں تو اسے تمہارے شانوں کے درمیان ڈال ہی کر رہوں گا (یعنی اسے تم سے بیان کر کے ہی چھوڑوں گا)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ ابن ابی خلف کی حدیث ہے اور زیادہ کامل ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3634]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المظالم 20 (2463)، صحیح مسلم/المساقاة 29 (1609)، سنن الترمذی/الأحکام 18 (1353)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 15 (2335)، (تحفة الأشراف: 13954)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة 26 (32)، مسند احمد (2/240، 274، 396، 463) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3635
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ لُؤْلُؤَةَ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ، قَالَ أَبُو دَاوُدَ: غَيْرُ قُتَيْبَةَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ، عَنْ أَبِي صِرْمَةَ صَاحِبِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ:" مَنْ ضَارَّ أَضَرَّ اللَّهُ بِهِ، وَمَنْ شَاقَّ شَاقَّ اللَّهُ عَلَيْهِ".
ابوصرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کو تکلیف پہنچائی تو اللہ تعالیٰ اسے تکلیف پہنچائے گا، اور جس نے کسی سے دشمنی کی تو اللہ تعالیٰ اس سے دشمنی کرے گا۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3635]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البر والصلة 27 (1940)، سنن ابن ماجہ/الأحکام 17 (2342)، (تحفة الأشراف: 12063)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/453) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 3636
حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْعَتَكِيُّ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا جَعْفَرٍ مُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ يُحَدِّثُ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ" أَنَّهُ كَانَتْ لَهُ عَضُدٌ مِنْ نَخْلٍ فِي حَائِطِ رَجُلٍ مِنْ الْأَنْصَارِ، قَالَ: وَمَعَ الرَّجُلِ أَهْلُهُ، قَالَ: فَكَانَ سَمُرَةُ يَدْخُلُ إِلَى نَخْلِهِ فَيَتَأَذَّى بِهِ وَيَشُقُّ عَلَيْهِ، فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يَبِيعَهُ، فَأَبَى، فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يُنَاقِلَهُ، فَأَبَى، فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ ذَلِكَ لَهُ، فَطَلَبَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَبِيعَهُ، فَأَبَى، فَطَلَبَ إِلَيْهِ أَنْ يُنَاقِلَهُ، فَأَبَى، قَالَ: فَهِبْهُ لَهُ وَلَكَ كَذَا وَكَذَا أَمْرًا رَغَّبَهُ فِيهِ، فَأَبَى، فَقَالَ: أَنْتَ مُضَارٌّ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْأَنْصَارِيِّ: اذْهَبْ فَاقْلَعْ نَخْلَهُ".
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک انصاری کے باغ میں ان کے کھجور کے کچھ چھوٹے چھوٹے درخت تھے، اور اس شخص کے ساتھ اس کے اہل و عیال بھی رہتے تھے۔ راوی کا بیان ہے کہ سمرہ رضی اللہ عنہ جب اپنے درختوں کے لیے جاتے تو انصاری کو تکلیف ہوتی اور ان پر شاق گزرتا اس لیے انصاری نے ان سے اسے فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا، پھر اس نے ان سے یہ گزارش کی کہ وہ درخت کا تبادلہ کر لیں وہ اس پر بھی راضی نہیں ہوئے تو وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے آپ سے اس واقعہ کو بیان کیا، تو آپ نے بھی ان سے فرمایا: اسے بیچ ڈالو پھر بھی وہ نہ مانے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے درخت کے تبادلہ کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی بات پر اڑے رہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تم اسے ہبہ کر دو، اس کے عوض فلاں فلاں چیزیں لے لو بہت رغبت دلائی مگر وہ نہ مانے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم «مضار» یعنی ایذا دینے والے ہو تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری سے فرمایا: جاؤ ان کے درختوں کو اکھیڑ ڈالو۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3636]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4633) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (محمد بن علی باقر نے سمرة رضی اللہ عنہ کو نہیں پایا ہے)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 3637
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا اللَّيْثِ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُرْوَةَ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ الزُّبَيْرِ حَدَّثَهُ:" أَنَّ رَجُلًا خَاصَمَ الزُّبَيْرَ فِي شِرَاجِ الْحَرَّةِ الَّتِي يَسْقُونَ بِهَا، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: سَرِّحْ الْمَاءَ يَمُرُّ، فَأَبَى عَلَيْهِ الزُّبَيْرُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلزُّبَيْرِ: اسْقِ يَا زُبَيْرُ، ثُمَّ أَرْسِلْ إِلَى جَارِكَ، فَغَضِبَ الْأَنْصَارِيُّ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنْ كَانَ ابْنَ عَمَّتِكَ؟، فَتَلَوَّنَ وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: اسْقِ، ثُمَّ احْبِسِ الْمَاءَ حَتَّى يَرْجِعَ إِلَى الْجَدْرِ، فَقَالَ الزُّبَيْرُ: فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَحْسَبُ هَذِهِ الْآيَةَ نَزَلَتْ فِي ذَلِكَ: فَلا وَرَبِّكَ لا يُؤْمِنُونَ حَتَّى يُحَكِّمُوكَ سورة النساء آية 65".
عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے زبیر رضی اللہ عنہ سے حرۃ کی نالیوں کے سلسلہ میں جھگڑا کیا جس سے وہ سینچائی کرتے تھے، انصاری نے زبیر رضی اللہ عنہ سے کہا: پانی کو بہنے دو، لیکن زبیر رضی اللہ عنہ نے اس سے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو پھر پانی کو اپنے پڑوسی کے لیے چھوڑ دو یہ سن کر انصاری کو غصہ آ گیا اور کہنے لگا: اللہ کے رسول! یہ آپ کے پھوپھی کے لڑکے ہیں نا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور آپ نے زبیر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم اپنے کھیت سینچ لو اور پانی روک لو یہاں تک کہ کھیت کے مینڈھوں تک بھر جائے۔ زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: اللہ کی قسم! میں سمجھتا ہوں یہ آیت «فلا وربك لا يؤمنون حتى يحكموك» قسم ہے تیرے رب کی وہ اس وقت تک کامل مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپ کو اپنا فیصل نہ مان لیں (سورة النساء: ۶۵) اسی بابت اتری ہے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3637]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/المساقاة 6 (2360)، 8 (2362)، الصلح 12 (2708)، تفسیر سورة النساء 12 (4585)، صحیح مسلم/الفضائل 36 (2357)، سنن الترمذی/الأحکام 26 (1363)، تفسیر النساء (3207)، سنن النسائی/القضاة 26 (5418)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 2 (15)، الرھون 20 (2480)، (تحفة الأشراف: 5275)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/165) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3638
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنِ الْوَلِيدِ يَعْنِي ابْنَ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي مَالِكِ بْنِ ثَعْلَبَةَ، عَنْ أَبِيهِ ثَعْلَبَةَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ، أَنَّهُ سَمِعَ كُبَرَاءَهُمْ يَذْكُرُونَ: أَنَّ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ كَانَ لَهُ سَهْمٌ فِي بَنِي قُرَيْظَةَ، فَخَاصَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَهْزُورٍ يَعْنِي السَّيْلَ الَّذِي يَقْتَسِمُونَ مَاءَهُ، فَقَضَى بَيْنَهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ الْمَاءَ إِلَى الْكَعْبَيْنِ لَا يَحْبِسُ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَلِ".
ثعلبہ بن ابی مالک قرظی کہتے ہیں انہوں نے اپنے بزرگوں سے بیان کرتے ہوئے سنا کہ قریش کے ایک آدمی نے جو بنو قریظہ کے ساتھ (پانی میں) شریک تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مہزور کے نالے کے متعلق جھگڑا لے کر آیا جس کا پانی سب تقسیم کر لیتے تھے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا کہ جب تک پانی ٹخنوں تک نہ پہنچ جائے اوپر والا نیچے والے کے لیے نہ روکے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3638]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15538)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الرہون 20 (2481) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 3639
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ، حَدَّثَنَا الْمُغِيرَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنِي أَبِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الْحَارِثِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قَضَى فِي السَّيْلِ الْمَهْزُورِ أَنْ يُمْسَكَ حَتَّى يَبْلُغَ الْكَعْبَيْنِ، ثُمَّ يُرْسِلُ الْأَعْلَى عَلَى الْأَسْفَلِ".
عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مہزور کے نالے کے متعلق یہ فیصلہ کیا کہ پانی اس وقت تک روکا جائے جب تک کہ ٹخنے کے برابر نہ پہنچ جائے، پھر اوپر والا نیچے والے کے لیے چھوڑ دے۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3639]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الرہون 20(2482)، (تحفة الأشراف: 8735) (حسن صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح

حدیث نمبر: 3640
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ خَالِدٍ، أَنَّ مُحَمَّدَ بْنَ عُثْمَانَ حَدَّثَهُمْ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ أَبِي طُوَالَةَ، وَعَمْرُو بْنُ يَحْيَى، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، قَالَ:" اخْتَصَمَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلَانِ فِي حَرِيمِ نَخْلَةٍ فِي حَدِيثِ أَحَدِهِمَا، فَأَمَرَ بِهَا فَذُرِعَتْ، فَوُجِدَتْ سَبْعَةَ أَذْرُعٍ، وَفِي حَدِيثِ الْآخَرِ، فَوُجِدَتْ خَمْسَةَ أَذْرُعٍ، فَقَضَى بِذَلِكَ"، قَالَ عَبْدُ الْعَزِيزِ: فَأَمَرَ بِجَرِيدَةٍ مِنْ جَرِيدِهَا فَذُرِعَتْ.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ دو شخص ایک کھجور کے درخت کی حد کے سلسلے میں جھگڑا لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے، ایک روایت میں ہے آپ نے اس کے ناپنے کا حکم دیا جب ناپا گیا تو وہ سات ہاتھ نکلا، اور دوسری روایت میں ہے وہ پانچ ہاتھ نکلا تو آپ نے اسی کا فیصلہ فرما دیا۔ عبدالعزیز کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی درخت کی ایک ٹہنی سے پیمائش کرنے کے لیے کہا تو پیمائش کی گئی۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْأَقْضِيَةِ/حدیث: 3640]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4408) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    3    4    5    6    7