الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔


سنن ابن ماجه کل احادیث (4341)
حدیث نمبر سے تلاش:

سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
حدیث نمبر: 49
حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ سُلَيْمَانَ الْعَسْكَرِيُّ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيٍّ أَبُو هَاشِمِ بْنِ أَبِي خِدَاشٍ الْمَوْصِلِيُّ ، قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مِحْصَنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ أَبِي عَبْلَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الدَّيْلَمِيِّ ، عَنْ حُذَيْفَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَقْبَلُ اللَّهُ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ صَوْمًا، وَلَا صَلَاةً، وَلَا صَدَقَةً، وَلَا حَجًّا، وَلَا عُمْرَةً، وَلَا جِهَادًا، وَلَا صَرْفًا، وَلَا عَدْلًا، يَخْرُجُ مِنَ الْإِسْلَامِ كَمَا تَخْرُجُ الشَّعَرَةُ مِنَ الْعَجِينِ".
حذیفہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کسی بدعتی کا روزہ، نماز، صدقہ و زکاۃ، حج، عمرہ، جہاد، نفل و فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتا، وہ اسلام سے اسی طرح نکل جاتا ہے جس طرح گوندھے ہوئے آٹے سے بال نکل جاتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 49]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3369، ومصباح الزجاجة: 18) (موضوع)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں محمد بن محصن العکاشی کذاب راوی ہے، نیزملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1493)

قال الشيخ الألباني: موضوع

حدیث نمبر: 50
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ مَنْصُورٍ الْخَيَّاطُ ، عَنْ أَبِي زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي الْمُغِيرَةِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَبَى اللَّهُ أَنْ يَقْبَلَ عَمَلَ صَاحِبِ بِدْعَةٍ حَتَّى يَدَعَ بِدْعَتَهُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کسی بدعتی کا عمل قبول نہیں فرماتا جب تک کہ وہ اپنی بدعت ترک نہ کر دے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 50]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6569، ومصباح الزجاجة: 19) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ابوزید اور ابو المغیرہ دونوں مجہول راوی ہیں، اس لئے یہ حدیث ضعیف ہے، نیز ملاحظہ ہو: تراجع الا ٔلبانی: رقم: 148، وسلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1492)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 51
حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الدِّمَشْقِيُّ ، وَهَارُونُ بْنُ إِسْحَاق ، قَالَا: حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي فُدَيْكٍ ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَرْدَانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ تَرَكَ الْكَذِبَ وَهُوَ بَاطِلٌ، بُنِيَ لَهُ قَصْرٌ فِي رَبَضِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ تَرَكَ الْمِرَاءَ وَهُوَ مُحِقٌّ، بُنِيَ لَهُ فِي وَسَطِهَا، وَمَنْ حَسَّنَ خُلُقَةُ، بُنِيَ لَهُ فِي أَعْلَاهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جھوٹ بولنا چھوڑ دیا اور وہ باطل پر تھا تو اس کے لیے جنت کے کناروں میں ایک محل بنایا جائے گا، اور جس نے حق پر ہونے کے باوجود بحث اور کٹ حجتی چھوڑ دی اس کے لیے جنت کے بیچ میں محل بنایا جائے گا، اور جس نے اپنے آپ کو حسن اخلاق سے مزین کیا اس کے لیے جنت کے اوپری حصہ میں محل بنایا جائے گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 51]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/البر والصلة 58 (1993)، (تحفة الأشراف: 868) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس حدیث کی امام ترمذی نے تحسین فرمائی ہے، لیکن اس کی سند میں سلمہ بن وردان منکرالحدیث راوی ہیں، اور متن مقلوب ہے جس کی وضاحت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے ہوتی ہے، ملاحظہ ہو: سنن ابی داود: 4800)

قال الشيخ الألباني: سنده ضعيف

8. بَابُ: اجْتِنَابِ الرَّأْيِ وَالْقِيَاسِ
8. باب: رائے اور قیاس سے اجتناب و پرہیز۔
حدیث نمبر: 52
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ إِدْرِيسَ ، وَعَبْدَةُ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ نُمَيْرٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ . ح وحَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، وَمَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، وَحَفْصُ بْنُ مَيْسَرَةَ ، وَشُعَيْبُ بْنُ إِسْحَاق ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنَ النَّاسِ، وَلَكِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمُ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ، فَإِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَّالًا، فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ، فَضَلُّوا، وَأَضَلُّوا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں مٹائے گا کہ اسے یک بارگی لوگوں سے چھین لے گا، بلکہ اسے علماء کو موت دے کر مٹائے گا، جب اللہ تعالیٰ کسی بھی عالم کو باقی اور زندہ نہیں چھوڑے گا تو لوگ جاہلوں کو سردار بنا لیں گے، ان سے مسائل پوچھے جائیں گے، اور وہ بغیر علم کے فتویٰ دیں گے، تو گمراہ ہوں گے، اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 52]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/ العلم 34 (100)، الاعتصام 7 (7307)، صحیح مسلم/العلم 5 (2673)، سنن الترمذی/العلم 5 (2652)، (تحفة الأشراف: 8883)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/257، 261)، سنن الدارمی/المقدمة 26 (245) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح

حدیث نمبر: 53
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي أَيُّوبَ ، حَدَّثَنِي أَبُو هَانِئٍ حُمَيْدُ بْنُ هَانِئٍ الْخَوْلَانِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ أُفْتِيَ بِفُتْيَا غَيْرَ ثَبَتٍ، فَإِنَّمَا إِثْمُهُ عَلَى مَنْ أَفْتَاهُ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جسے (بغیر تحقیق کے) کوئی غلط فتویٰ دیا گیا (اور اس نے اس پر عمل کیا) تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہو گا۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 53]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/العلم 8 (3657)، (تحفة الأشراف: 14611)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/321، 365)، سنن الدارمی/ المقدمة 20 (161) (حسن)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: حسن

حدیث نمبر: 54
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنِي رِشْدِينُ بْنُ سَعْدٍ ، وَجَعْفَرُ بْنُ عَوْنٍ ، عَنْ ابْنِ أَنْعُمٍ هُوَ الْإِفْرِيقِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ، فَمَا وَرَاءَ ذَلِكَ فَهُوَ فَضْلٌ آيَةٌ مُحْكَمَةٌ، أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ، أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: علم تین طرح کا ہے، اور جو اس کے علاوہ ہے وہ زائد قسم کا ہے: محکم آیات ۱؎، صحیح ثابت سنت ۲؎، اور منصفانہ وراثت ۳؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 54]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابی داود/الفرائض 1 (2885)، (تحفة الأشراف: 8876) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں تین راوی: رشدین بن سعد، عبدالرحمن بن زیاد بن أنعم الإفریقی اور عبد الرحمن بن رافع ضعیف ہیں)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 55
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ حَمَّادٍ سَجَّادَةُ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْأُمَوِيُّ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعِيدِ بْنِ حَسَّانَ ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ نُسَيٍّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ جَبَلٍ ، قَالَ: لَمَّا بَعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، قَالَ:" لَا تَقْضِيَنَّ، وَلَا تَفْصِلَنَّ إِلَّا بِمَا تَعْلَمُ، فَإِنْ أَشْكَلَ عَلَيْكَ أَمْرٌ فَقِفْ حَتَّى تَبَيَّنَهُ، أَوْ تَكْتُبَ إِلَيَّ فِيهِ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو یمن بھیجا تو فرمایا: جن امور و مسائل کا تمہیں علم ہو انہیں کے بارے میں فیصلے کرنا، اگر کوئی معاملہ تمہارے اوپر مشتبہ ہو جائے تو ٹھہرنا انتظار کرنا یہاں تک کہ تم اس کی حقیقت معلوم کر لو، یا اس سلسلہ میں میرے پاس لکھو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 55]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11339)، (مصباح الزجاجة: 20) (موضوع)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن سعید بن حسان المصلوب وضاع اور متروک الحدیث راوی ہے)

قال الشيخ الألباني: موضوع

حدیث نمبر: 56
حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي الرِّجَالِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَمْرٍو الْأَوْزَاعِيِّ ، عَنْ عَبْدَةَ بْنِ أَبِي لُبَابَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" لَمْ يَزَلْ أَمْرُ بَنِي إِسْرَائِيلَ مُعْتَدِلًا، حَتَّى نَشَأَ فِيهِمُ الْمُوَلَّدُونَ أَبْنَاءُ سَبَايَا الْأُمَمِ، فَقَالُوا بِالرَّأْيِ، فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا".
عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: بنی اسرائیل کا معاملہ ہمیشہ ٹھیک ٹھاک رہا یہاں تک کہ ان میں وہ لوگ پیدا ہو گئے جو جنگ میں حاصل شدہ عورتوں کی اولاد تھے، انہوں نے رائے (قیاس) سے فتوی دینا شروع کیا، تو وہ خود بھی گمراہ ہوئے، اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 56]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 8882)، (مصباح الزجاجة: 21) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں سوید بن سعید ضعیف اور مدلس ہیں، اور کثرت سے تدلیس کرتے ہیں، ابن ابی الرجال کے بارے میں بوصیری نے کہا ہے کہ وہ حارثہ بن محمد عبد الرحمن ہیں، اور وہ ضعیف راوی ہیں، لیکن صحیح یہ ہے کہ وہ عبد الرحمن بن ابی الرجال محمد بن عبدالرحمن بن عبد اللہ بن حارثہ بن النعمان الانصاری المدنی ہیں، جو صدوق ہیں لیکن کبھی خطا ٔ کا بھی صدور ہوا ہے، ابن حجر فرماتے ہیں: «صدوق ربما أخطأ» ، نیز ملاحظہ ہو ''مصباح الزجاجة'' بتحقیق د؍عوض الشہری: 1/ 117- 118)

قال الشيخ الألباني: ضعيف

حدیث نمبر: 56M
حدثنا محمد ابن أبي عمر العدنى عن سفيان بن عيينة قال: لم يزل أمر الناس معتدلا حتى نشأ فلان بالكوفة وربيعة الرأي بالمدينة وعثمان البتي بالبصرة فوجدناهم من أبنائ سبايا الأمم.
سفیان بن عیینہ کہتے ہیں لوگوں کا معاملہ برابر ٹھیک رہا یہاں تک کہ کوفہ میں فلاں شخص، مدینہ میں ربیعۃ الرای، اور بصرہ میں عثمان البتی پیدا ہوئے، ہم نے انہیں جنگ میں قید کی جانے والی عورتوں کی اولاد میں سے پایا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 56M]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18778، ومصباح الزجاجة: 22) (صحیح)» ‏‏‏‏

9. بَابٌ في الإِيمَانِ
9. باب: ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 57
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ، أَوْ سَبْعُونَ بَابًا، أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ «لا إله إلا الله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۲؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 57]
تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 3 بلفظ: ''وستون'' (9)، صحیح مسلم/الإیمان 12 بلفظ: ''وسبعون'' وھو الأرجح (35)، سنن ابی داود/السنة 15 (4676)، سنن الترمذی/الإیمان 6 (2614)، سنن النسائی/الإیمان 16 (5007، 5008، 5009)، (تحفة الأشراف: 12816)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/414، 242، 445) (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح


Previous    2    3    4    5    6    7    8    9    10    Next