انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 67]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 7 (13)، 8 (15)، صحیح مسلم/الإیمان 16 (44)، سنن النسائی/الایمان 19 (5016)، سنن الترمذی/صفة القیامة 59 (2515)، (تحفة الأشراف: 1239)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/177، 207) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 68]
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 22 (54)، سنن الترمذی/الاستئذان 1 (2688)، (تحفة الأشراف: 12469، 12513)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 142 (5193)، مسند احمد (1/165، 2/391)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3692) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 69]
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الإیمان 38 (48)، الأدب 44 (7044)، الفتن 8 (7076)، صحیح مسلم/الإیمان 28 (64)، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) 27 (4114، 4115، 4116)، (تحفة الأشراف: 9243، 9251، 9299)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة 52 (1983)، الإیمان 15 (2635)، مسند احمد (1/385، 411، 417، 433) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 393) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ فَارَقَ الدُّنْيَا عَلَى الْإِخْلَاصِ لِلَّهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، مَاتَ وَاللَّهُ عَنْهُ رَاضٍ"قَالَ أَنَسٌ: وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَبَلَّغُوهُ عَنْ رَبِّهِمْ قَبْلَ هَرْجِ الْأَحَادِيثِ، وَاخْتِلَافِ الْأَهْوَاءِ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فِي آخِرِ مَا نَزَلَ يَقُولُ اللَّهُ: فَإِنْ تَابُوا سورة التوبة آية 5 قَالَ: خَلَعُوا الْأَوْثَانِ وَعِبَادَتِهَا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ سورة التوبة آية 5، وَقَالَ فِي آيَةٍ أُخْرَى: فَإِنْ تَابُوا، وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ، وَآتَوْا الزَّكَاةَ، فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے دنیا کو اس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، نماز قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تو اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ اس سے راضی ہو گا“۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوں اور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔ اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورۃ (براءۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة» الآية، یعنی: ”اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں“ (سورۃ التوبہ: ۵)۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہو جائیں، اور نماز قائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو)۔ اور دوسری آیت میں یہ ہے: «فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فإخوانكم في الدين» یعنی: ”اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں“ (سورۃ التوبہ: ۱۱) ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 70]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 832، ومصباح الزجاجة: 25) (ضعیف)» (سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
اس سند سے ربیع بن انس رحمہ اللہ سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 70M]
قال الشيخ الألباني: ضعيف
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں“ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 71]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12259)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 1 (1399)، 40 (1457)، المرتدین 3 (6924)، صحیح مسلم/الإیمان 8 (21)، سنن ابی داود/الزکاة 1 (1556)، سنن الترمذی/الإیمان 1 (2606)، سنن النسائی/الزکاة 3 (2442)، المحاربة 1 (3983)، مسند احمد (2/528) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3927) (صحیح متواتر)» (اس کی سند حسن ہے، لیکن اصل حدیث متواتر ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے لوگوں سے قتال (لڑنے) کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں۔“ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 72]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11340، ومصباح الزجاجة: 26)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/28، 5 245) (صحیح متواتر)» (اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، بلکہ اصل حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد: 1/ 24)
قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر
ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں: ایک مرجئہ اور دوسرے قدریہ (منکرین قدر)“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 73]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2498، ومصباح الزجاجة: 27) (ضعیف)» (اس کی سند میں نزار بن حیان ضعیف راوی ہیں، اور عکرمہ سے ایسی روایت کرتے ہیں، جو ان کی نہیں ہو تی، اور عبدالرحمن محمدا للیثی مجہول ہیں)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ سَعِيدُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ مُجَاهِدٍ، عَنِ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ".
ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا، اور گھٹتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 74]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6411، 14352) (ضعیف جدًا)» (سند میں عبد الوہاب بن مجاہد متروک الحدیث راوی ہے، لیکن سلف صالحین کے ایمان کی زیادتی اور نقصان پر بکثر ت اقوال ہیں، اور آیات کریمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، نیز اس باب میں بعض مرفوع روایت مروی ہے، جو صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1123)
قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَارِثِ أَظُنُّهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ:" الْإِيمَانُ يَزْدَادُ، وَيَنْقُصُ".
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب السنة/حدیث: 75]
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10960) (ضعیف)» (سند میں حارث کو شک ہے کہ انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے، اس لئے اس سے انقطاع سند کا اشارہ ملتا ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف